پاکستان: سیاسی جماعتوں میں ٹوٹ پھوٹ اور سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کی تاریخ اور عوامل

ویب ڈیسک

پاکستان میں ان دنوں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) شدید عتاب کی زد میں ہے، حالت یہ ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والے کسی بھی سیاسی رہنما کی پریس کانفرنس کی خبر سامنے آنے پر یہی گمان کیا جانے لگا ہے کہ وہ پارٹی سے راہیں جدا کرنے والا ہے

حالیہ چند روز کے دوران پی ٹی آئی کے کئی مرکزی اور ضلعی سطح کے رہنما، پریس کانفرنس کے ذریعہ پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کر چکے ہیں اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے

عمران خان کی گرفتاری کے بعد نو مئی کو ہونے والے واقعات کے بعد ملک کے سیاسی ماحول میں آنے والی تبدیلی واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے

پی ٹی آئی کے رہنماؤں، اراکین پارلیمنٹ اور کارکنوں کی وفاداری تبدیل کرنے پر جہاں مسلم لیگ نون کے حلقوں میں شادیانے بج رہے ہیں، وہیں کہیں حلقے یہ سوال کر رہے ہیں کہ آخر سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کا یہ سلسلہ کب رکے گا

کچھ حلقوں میں یہ بات بھی زیر بحث ہے کہ سیاسی جماعتوں میں ٹوٹ پھوٹ کرانے کے ذمہ دار کون ہیں اور آیا اس کی ساری ذمہ داری صرف غیر مرعی طاقتوں پر ڈالی جانی چاہیے یا اس میں سیاسی جماعتوں کا بھی حصہ ہے؟

پی ٹی آئی رہنماؤں کا پارٹی چھوڑنے کا عمل

پاکستان تحریک انصاف کے مطابق اس وقت اس جماعت کو ایک سخت کریک ڈاؤن کا سامنا ہے۔ اس دوران کارکنان، اراکین پارلیمنٹ اور رہنماؤں کو گرفتار کیا جاتا ہے یا حراست میں لیا جاتا ہے اور پھر جب وہ واپس آتے ہیں تو یا وہ پارٹی چھوڑ دیتے ہیں یا پھر سیاست سے ہی کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔ ایسا پی ٹی آئی کے صرف وہ رہنما نہیں کر رہے، جو ماضی میں دوسری سیاسی جماعتوں سے وابستہ رہے ہیں بلکہ تحریک انصاف کے کٹر حامی سمجھے جانے والے رہنما بھی سیاست میں دوبارہ قدم نہ رکھنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ اس کی حالیہ مثال سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کی ہے، جنہوں نے منگل کو ہی سیاست کو خیر باد کہا ہے

عمران خان نے سیاسی رہنماؤں کی پارٹی سے علیحدگی کے اعلانات پر اپنے ایک حالیہ ردعمل میں کہا کہ ہم نے پاکستان میں ’جبری شادیوں‘ کے بارے میں تو سُن رکھا تھا، مگر تحریک انصاف کے لیے ’جبری علیحدگیوں‘ کا ایک نیا عجوبہ متعارف کروایا گیا ہے

تاہم پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ تحریکِ انصاف کو جس صورتِ حال کا سامنا ہے بعض اعتبار سےوہ ماضی سے مختلف تو ہوسکتی ہے لیکن نئی نہیں ہے

سیاسی وابستگیاں بدلنے کی تاریخ

انسٹیٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ کے ڈائریکٹر اور پاکستان کی سیاسی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے، ڈاکٹر جعفر احمد کہتے ہیں قیامِ پاکستان کے بعد خود ملک بنانے والی سیاسی جماعت مسلم لیگ کو تقسیم کا سامنا کرنا پڑا۔ نواب افتخار حسین ممدوٹ اور حسین شہید سہروردی پارٹی پالیسی سے مطمئن نہیں تھے تو انہوں نےپارٹی چھوڑ کر علیحدہ سیاسی جماعتیں قائم کیں

ڈاکٹر جعفر کا کہنا ہے کہ ماضی میں بائیں بازو کے نظریات کی حامل نیشنل عوامی پارٹی (نعپ) ولی خان گروپ اور بھاشانی گروپ میں تقسیم ہوئی اور دونوں ہی کا دعویٰ تھا کہ وہ حقیقی جماعت ہیں

تاہم ڈاکٹر سید جعفر احمد کے مطابق یہ زیادہ تر نظریاتی بنیادوں یا پالیسی پر اختلاف کی وجہ سے پارٹیوں کی تقسیم یا رہنماؤں کی جماعت سے علیحدگی کی مثالیں ہیں۔اگر اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کے تحت سیاسی پارٹی چھوڑنے کی نمایاں مثال دی جائے تو 1977ع کے مارشل لا کے بعد پیپلز پارٹی کو اس کا سامنا کرنا پڑا

ان کے بقول مارشل لاکے بعد مصطفیٰ کھر، ممتاز بھٹو، حفیظ پیرزادہ ملک سے باہر چلے گئے لیکن پارٹی کے بارے میں خاموش رہے۔ اسی طرح پاکستان میں کوثر نیازی اور کمال اظفر نے بھی پارٹی سے راہیں جدا کیں

وہ کہتے ہیں ان میں سے بعض رہنماؤں پر دباؤ تھا تو بعض کو لالچ بھی دیا گیا۔ غلام مصطفیٰ جتوئی کو وزارتِ عظمی کی پیش کش ہوئی لیکن بیگم نصرت بھٹو نے انہیں روک دیا۔ 1983 میں جتوئی صاحب نے بھی پیپلز پارٹی چھوڑ دی

اسٹیٹ یونیورسٹی آف نیویارک میں سیاسیات کی پروفیسر اور ’پاکستانز پولیٹیکل پارٹیز: سروائیونگ بٹوین ڈکٹیٹر شپ اینڈ ڈیموکریسی‘ کتاب کی شریک مرتب نیلوفر صدیقی کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتیں چھوڑنا پاکستانی سیاست میں معمول کی بات بن چکی ہے۔ ہمارے ہاں یہ عام بات ہے کہ ایک امیدوار کبھی کسی پارٹی کے ٹکٹ سے میدان میں اترتا ہے اور اگلے انتخاب میں کسی اور سیاسی جماعت کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے۔اس کی بنیادی وجہ سیاسی جماعتوں کا کمزور ڈھانچہ ہے جس کی وجہ سے بڑی قومی سیاسی جماعتوں کو بھی مقامی اشرافیہ کے گروپس کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ انہیں ہمارے ہاں الیکٹبلز کہا جاتا ہے۔ تحریکِ انصاف بھی اس سے مستثنٰی نہیں ہے

سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ کے ذمہ دار

پاکستان میں سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں پاکستان پیپلزپارٹی کو توڑ کر اس میں سے پاکستان پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بنائی گئی، جب کہ نون لیگ کے ارکان کو توڑ کر پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم کو تشکیل دیا گیا۔ کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ اس ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سیاسی جماعت کے قائدین کا رویہ ہے جبکہ کچھ کے خیال میں یہ ٹوٹ پھوٹ بنیادی طور پر ملک کے مقتدر قوتوں کہ اشارے پر ہوتی ہے

لاہور سے تعلق رکھنے والی عوامی ورکرز پارٹی کی رہنما عابدہ چوہدری کا کہنا ہے ”پاکستان تحریک انصاف کو توڑنے میں اسٹیبلشمنٹ ملوث ہے۔ سب کو پتہ ہے کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے پاس سارے اختیارات اور طاقت ہے، جو نہ صرف سیاسی جماعتوں کو بناتی ہے بلکہ توڑتی بھی ہے۔ جب تحریک انصاف کو تشکیل دیا گیا تو مختلف جماعتوں کے لوٹوں کو اس میں بھیج دیا گیا اور اب ان پر دباؤ ڈال کر پی ٹی آئی چھوڑنے کا کہا جا رہا ہے‘‘

عابدہ چودھری کے مطابق ”پاکستان میں سیاسی جماعتیں صرف کٹھ پتلیاں ہیں اور کٹھ پتلیاں اقتدار میں آنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی خوشامد کرتی ہیں، جس کے نتیجے میں انہیں اقتدار ملتا ہے لیکن اختیار نہیں‘‘

ڈاکٹر جعفر احمد پاکستان میں سیاسی عمل میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کو سیاسی جماعتوں کی کمزوری کا بنیادی سبب قرار دیتے ہیں

وہ کہتے ہیں ”ایسا نہیں ہے کہ نظریاتی جماعتیں تقسیم کا شکار نہیں ہوئیں۔ نعپ اور پیپلز پارٹی نظریاتی جماعتیں تھیں لیکن انہیں بھی اس صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ پارٹی کے ڈھانچے میں کمزوری یا نظریات سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی مداخلت تھی“

ان کا کہنا تھا کہ قیامِ پاکستان کے بعد پہلے نو سال ملک میں آئین نہیں بنا اور بنا بھی تو ڈھائی برس بعد ہی اسٹیبلشمنٹ نے اسے ختم کر دیا۔ ملک میں آئین کی بالادستی ہو تو سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتی ہیں۔ جس میں دم خم ہوتا ہے، وہ باقی رہ جاتا ہے، لیکن یہ سب اسی وقت ممکن ہے، جب سیاسی عمل کو جاری رہنے دیا جائے

مبصرین کے نزدیک داخلی سیاست میں بیرونی مداخلت کے الزامات کا تعلق عالمی سیاسی صورتِ حال سے بھی رہا ہے

صحافی و تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ سیاسی جماعتیں بناتی اور توڑتی رہی ہے لیکن پی ٹی آئی کو درپیش حالات میں دو پہلو ماضی سے قدرے مختلف ہیں۔پہلی بات یہ ہے کہ جو رہنما پارٹی چھوڑ کر جا رہے ہیں وہ سیاست سے لاتعلقی کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ وہ مستقبل میں اس فیصلے میں قائم رہتے ہیں یا نہیں، یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن جماعت چھوڑنے پر اس طرح سیاست سے لاتعلقی کا رجحان ماضی سے قدرے مختلف ہے

مظہر عباس کا کہنا ہے کہ دوسرا منفرد پہلو جو موجودہ حالات کو ماضی سے مختلف بناتا ہے، وہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی میں شامل پرویز الہیٰ جیسے رہنما جو ماضی میں پارٹیاں تبدیل کرتے رہے ہیں، وہ اب تک عمران خان کے ساتھ ہیں۔ دیکھنا ہے کہ وہ کب تک ان کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں

سیاسی تجزیہ کار اور صحافی حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ اس بار یہ بات بھی ماضی سے مختلف ہے کہ پہلے پارٹی چھوڑنے والوں کا بعد میں پتا چلتا تھا اور اس بار خبر پہلے ہی سامنے آ جاتی ہے۔ سوشل میڈیا پر باز گشت شروع ہو جاتی ہے اور جو پہلے عوام کی نظروں سے اوجھل تھا، وہ اب ان کے سامنے کیا جاتا ہے

ان کا کہنا ہے کہ 2013 کے بعد بھی سیاسی وفاداریاں تبدیل ہوئیں لیکن پہلے یہ معلوم ہوتا تھا کہ ایک گھروندا مسمار کرنے والے کون سا دوسرا گھروندا تیار کر رہے ہیں، اس بار یہ منظر بھی واضح نہیں

ان کے بقول بظاہر تحریکِ انصاف سے علیحدگی کا سب سے زیادہ فائدہ پیپلز پارٹی کو ہوتا نظر آرہا ہے لیکن فی الوقت ان رخصت ہونے والوں کا کوئی اور استقبال کرتا نظر نہیں آتا۔ اس بار یہ بات بھی مختلف ہے کہ جس جماعت کے لوگ جارہے ہیں، وہ خاموش نہیں بیٹھ رہی ہے

انہوں نے کہا کہ ماضی میں جب سیاسی وابستگیاں تبدیل ہوتی تھیں لوگوں کو اس کے محرکات کا اندازہ اس وقت بھی ہوتا تھا۔ لیکن اس بار معاملہ بہت واضح ہے اور بات تھانے دار اور تحصیل دار کی سطح پر آ گئی ہے

ٹوٹ پھوٹ کا موازنہ

گو کہ پاکستان میں کئی سیاسی جماعتوں میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہے لیکن کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ تحریک انصاف میں ٹوٹ پھوٹ کا یہ عمل کچھ زیادہ ہی تیز ہے۔ گوادر سے تعلق رکھنے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے مشیر عبدالرحیم ظفر کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کے خلاف بھی بہت سخت کریک ڈاون کیا گیا تھا لیکن پارٹی کے کارکنان اور رہنماؤں نے اتنی جلدی پارٹی کو خیرباد نہیں کہا تھا، جتنی تیزی سے پی ٹی آئی والے کہہ رہے ہیں

انہوں نے کہا ”ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری اور پھانسی کے کئی برسوں بعد تک رہنما اور کارکنان مزاحمت کرتے رہے۔ سندھ میں طالب المولیٰ، قائم علی شاہ اور این ڈی خان سمیت کئی رہنما ثابت قدم رہے۔ پنجاب میں راجہ انور اور بابائے سوشلزم شیخ رشید سمیت کئی رہنما بھی ڈٹے رہے۔ خیبرپختونخوا میں آفتاب شیرپاؤ کے گھرانے سمیت کئی رہنماؤں نے بزدلی نہیں دکھائی۔ بالکل اسی طرح بلوچستان میں عبداللہ گچکی اور طاہر خان سمیت کئی رہنماؤں نے اس پارٹی کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کر دیا‘‘

عبدالرحیم ظفر کے خیال میں ماضی میں سیاست نظریاتی بنیادوں پر ہوتی تھی لیکن کیونکہ اب سیاست نظریاتی بنیادوں پر نہیں ہوتی اور جاسوس اداروں کا سیاست میں عمل دخل بہت بڑھ گیا ہے، اس لیے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کا یہ عمل بھی تیز ہے

کیا اس عمل کو روکا جا سکتا ہے؟

ڈاکٹر سید جعفر احمد کا کہنا ہے کہ یہ بہت پیچیدہ سوال ہے اور اس کا انحصار پاکستان میں سول ملٹری تعلقات میں طاقت و اقتدار کے توازن پر ہے

ان کا کہنا ہے کہ موجودہ سیاسی بحران کی جزئیات میں جائے بغیر اگر حل کی جانب جانا ہے تو آئین کی بالادستی قائم کرنا ہوگی۔ جس ادارے کا جو کام ہے اسے وہ کرنا چاہیے اور ملک کی جمہوری قوتوں کو اپنے مسائل کا حل نکالنا چاہیے۔

ان کا کہنا ہے کہ سیاسی بحران کا حل یہی ہے کہ صاف اور شفاف انتخابات کرائے جائیں اور اس کے لیے ایک آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن ہونا چاہیے

پاک سر زمین کے سابق رہنما رضا ہارون کا کہنا ہے کہ اس عمل کو روکنا اس وقت تک مشکل ہے، جب تک سیاست میں متوسط اور نچلے طبقات سے لوگ نہیں آتے

لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار خالد بھٹی کا کہنا ہے ”جب تک سیاست دان جی ایچ کیو اور سیاسی لوٹوں سے جان نہیں چھڑاتے، یہ سلسلہ چلتا رہے گا‘‘

سیاسی جماعتوں کی تاریخ مرتب کرنے والی ماہرِ سیاسیات نیلو فر صدیقی کا کہنا ہے کہ سیاسی وفاداریاں تبدیل ہونے اور کمزور سیاسی جماعتوں کی وجہ سے ملک میں جمہوری عمل متاثر ہوتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتیں جب تک نچلی سطح پر اپنے تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط نہیں کریں گی اور بااثر افراد پر انحصار کرتی رہیں گی تو وہ کبھی مضبوط نہیں ہوں گی

سیاسی نقصان؟

سینئر صحافی مجیب الرحمن شامی کے خیال میں سیاسی وابستگیاں تبدیل ہونے یا دباؤ سے کوئی سیاسی جماعت ختم نہیں ہوتی البتہ اس سے کچھ نہ کچھ نقصان ضرور پہنچتا ہے

ان کے بقول پی ٹی آئی کو جس صورتِ حال کا سامنا ہے اس سے عمران خان کی مقبولیت پر اثر پڑے گا اور انتخابات میں بھی اس کے اثرات دکھائی دیں گے

حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ آئندہ انتخاب میں ووٹ دینے والوں کی غالب اکثریت نہ سہی لیکن کم از کم نصف تعداد ان ووٹرز پر مشتمل ہے، جنہوں نے موبائل کے عام ہونے کے دور میں ہوش سنبھالا ہے

ان کے مطابق یہ وہ نسل ہے جو سیاست اور سماج کو اس انداز میں نہیں دیکھتی، جیسے ستر اور اسی کی دہائی میں پیدا ہونے والا ووٹر دیکھتا ہے

ان کا کہنا ہے اس نئے ووٹر میں عمران خان کو مقبولیت حاصل ہے، اس لیے پی ٹی آئی کی صفوں سے رہنماؤں کے نکلنے کے اثرات ماضی جیسے نہیں ہوں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close