انڈیا کے ایک گاؤں کی کہانی، جہاں چار سو سے زیادہ جڑواں بچے ہیں۔۔

ویب ڈیسک

’انسانی فوٹو کاپی‘ ہے نہ دلچسپ اصطلاح۔۔ بات ہو رہی ہے جڑواں بچوں کی۔۔

انگریزی کے معروف شاعر اور ڈرامہ نگار شیکسپيئر کے ڈرامے ’کامیڈی آف ایررز‘ میں ایک منفرد کہانی بیان کی گئی ہے۔ اسی ڈرامے پر مبنی بالی وڈ کے معروف نغمہ نگار گلزار نے فلم ’انگور‘ بنائی تھی، جس میں کئی جڑواں اور ہم شکل کردار ہوتے ہیں۔

یہ تو ہوئی ڈرامے اور فلم کی بات لیکن آپ نے یقیناً حقیقی زندگی میں بھی اپنے خاندان، گاؤں، قصبے یا شہر میں جڑواں بھائیوں یا بہنوں کو دیکھا ہوگا۔

جڑواں ہونے کی وجہ سے کبھی ہم شکلوں کو فائدہ تو کبھی گھاٹا بھی ہوتا ہے۔ دوسروں کو بھی اکثر کوئی ایسی غلط فہمی ہو جاتی ہے کہ دلچسپ اور مضحکہ خیز باتیں وقوع پذیر ہو جاتی ہیں۔

جڑواں اور ہم شکل قدرت کے نظام کا حصہ ہے لیکن ایسا کم ہی ہوتا نظر آتا ہے۔۔ لیکن ہم آج آپ کو ایک ایسے گاؤں لیے چلتے ہیں، جہاں جڑواں بچوں کی بہتات ہے

جی ہاں، یہ کہانی ہے ایک ایسے گاؤں کی، جہاں چار سو سے زیادہ جڑواں بچے ہیں۔ شاید آپ یقین نہ کریں، لیکن یہ سچ ہے کہ انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ کے ضلع ملا پورم کا گاؤں کوڈینہی ایسا ہی ایک گاؤں ہے۔

یہ گاؤں دو سوا دو ہزار خانوادوں پر مشتمل ہے۔ لوگ جہاں اس گاؤں کی خوبصورتی کے گن گاتے ہیں، وہیں یہاں پیدا ہونے والے جڑواں بچوں کی تعداد کے بارے میں جان کر حیران رہ رہ جاتے ہیں۔

پہلی نظر میں کوڈینہی گاؤں بالکل نارمل لگتا ہے۔ کیرالہ کے بہت سے دوسرے دیہاتوں کی طرح، یہ بھی نہروں کے ساتھ ناریل کے درختوں سے لیس ہے، یہاں چاول کے کھیت ہیں، ہرے بھرے خوبصورت مناظر ہیں۔ اس گاؤں کی داخلی حدود پر ایک بورڈ نصب ہے جس پر لکھا ہے کہ ’اللہ کے گاؤں کوڈینھی میں خوش آمدید‘ جبکہ اس گاؤں کو جڑواں بچوں والے گاؤں کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ جب آپ اس کی تنگ گلیوں میں داخل ہوتے ہیں، تو آپ کو بڑی تعداد میں ایک جیسے چہرے نظر آتے ہیں۔

اس گاؤں میں لگ بھگ دوہزار کی آبادی ہے مگر ساڑھے چار سو سے زیادہ جڑواں بچے ہیں۔ اس گاؤں کی 85 فیصد آبادی مسلمان ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ ہندو خاندانوں میں جڑواں بچے پیدا نہیں ہوتے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس گاؤں پر خدا کا فضل ہے کہ جب بھی یہاں کسی کنبے میں بچے پیدا ہوتے ہیں تو زیادہ تر جڑواں بچے پیدا ہوتے ہیں۔

یہ گاؤں دنیا بھر کے ڈاکٹروں کے لیے بھی دلچسپی کا باعث ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں جڑواں بچوں کی وجہ سے یہ گاؤں ان کے لیے کسی معمے سے کم نہیں، جس کو سلجھانے میں وہ ایک عرصے سے لگے ہوئے ہیں۔ کئی بار سائنس دانوں نے اس نایاب واقعے کی تحقیقات کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن اس کا جواب اب بھی ان کے پاس نہیں ہے۔

یونیورسٹی آف ساؤتھ فلوریڈا میں علم بشریات کی ماہر لوریڈا میڈریگل تو کوڈینہی کو کسی ’دوسری دنیا کا خطہ‘ مانتی ہیں۔ انہوں نے اس پر تحقیق کی ہے۔

ماہرین اس گاؤں میں جڑواں بچوں کی پیدائش کے غیر معمولی رجحان پر حیران ہیں جو کہ عالمی اوسط سے تقریباً سات گنا زیادہ ہے۔

اس گاؤں میں جڑواں بچوں کی پیدائش کی وجہ کچھ لوگوں نے یہاں کے کھانے اور طرز زندگی کو قرار دیا ہے، کچھ کہتے ہیں کہ یہاں کی مٹی میں کچھ خاص چیز ہے، کچھ کا خیال ہے کہ گاؤں کے پانی میں موجود کیمیکل کی وجہ سے بھی ایسا ہو سکتا ہے وغیرہ وغیرہ مگر پھر بھی ابھی تک اس گاؤں میں جڑواں بچوں کی پیدائش کا معمہ حل نہیں ہو سکا ہے۔

اس گاؤں میں رہنے والے سب سے پرانے جڑواں بچے عبدالحمید اور اس کی جڑواں بہن کنہی کدیہ ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس گاؤں میں جڑواں بچے پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی طور پر سالوں میں صرف چند جڑواں بچے پیدا ہوتے تھے لیکن بعد میں اس میں تیزی آئی اور اب جڑواں بچے بہت تیز رفتاری سے پیدا ہو رہے ہیں

سن 2008 میں وہاں کی خواتین نے تین سو صحت مند بچوں کو جنم دیا، جن میں سے پندرہ خواتین کے ہاں جڑواں بچے پیدا ہوئے

پیدائش کے اعداد و شمار رکھنے والے محکمے کے مطابق کوڈینہی گاؤں میں گذشتہ پانچ سالوں میں ساٹھ جڑواں بچوں کی پیدائش ہوئی ہے۔۔ اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہر گزرتے سال کے ساتھ جڑواں بچوں کی گنتی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ یہاں پیدا ہونے والے جڑواں بچے یا ان کی ماؤں میں کوئی جسمانی نقص یا ذہنی خرابی ہے، ایسا کچھ بھی نہیں۔ خواتین بھی صحت مند رہتی ہیں اور کسی قسم کی خرابی کا شکار نہیں ہوتیں۔

مسلمانوں کی اکثریت والے اس گاؤں کے چاروں طرف بیک واٹرز ہیں اور شہر سے جوڑنے والا صرف ایک راستہ ہے۔ لوریڈا میڈریگل کے مطابق اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ اس گاؤں میں ہندو، مسلم اور مسیحی تینوں مذاہب کے لوگ ہیں، لیکن اس گاؤں کو کسی ایک تشخص نہیں دیا جا سکتا۔

جڑواں بچوں کی پیدائش کا مطالعہ کرنے میں دلچسپی رکھنے والے کیرالہ کے ڈاکٹر کرشنن سری بیجو کئی سالوں سے کوڈینہی میں بڑی تعداد میں جڑواں بچوں کی پیدائش کے راز کو جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر سری بیجو کا ماننا ہے کہ گاؤں میں جڑواں بچوں کی اصل تعداد سرکاری طور پر کاغذات میں درج کی گئی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ کہتے ہیں، ”میری رائے میں کوڈینہی گاؤں کی حدود میں تقریباً 450 سے 500 جڑواں بچے ہیں۔“

گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ جڑواں بچوں کی پیدائش کے واقعات تین نسل پہلے شروع ہوئے تھے۔ انڈین خبرساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق اس گاؤں میں 1949 میں پہلا جڑواں بچہ پیدا ہوا تھا، لیکن اس کے بعد سے اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

لیکن ڈاکٹر سری بیجو نے ٹائمز آف انڈیا سے بات کرتے ہوئے پرجوش انداز میں کہا، ”میری معلومات کے مطابق، یہ طبی معجزہ 60 سے 70 سال پہلے کے درمیان میں شروع ہوا تھا۔“

بہرحال تاحال اس بات پر کوئی تحقیق نہیں ہوئی ہے کہ آخر وہاں اتنی تعداد میں ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں اس کا گاؤں والوں کے کھانے پینے سے کچھ نہ کچھ تعلق ضرور ہے۔

ڈاکٹر سری بیجو کا کہنا ہے ”حیرت کی بات یہ ہے کہ ہر گزرتے سال کے ساتھ جڑواں بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ پچھلے دس سالوں میں کوڈینہی میں جڑواں بچوں کی تعداد دوگنی ہو گئی ہے۔“

ڈاکٹر سری بیجو انڈیا میں جڑواں بچوں کی پیدائش کی کم سطح پر غور کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ حیرت کی بات ہے کہ ایک انڈین گاؤں میں جڑواں بچوں کی اتنی زیادہ تعداد ہے۔

ڈاکٹر سری بیجو کے مطابق، ”میرے خیال میں جڑواں بچوں کی پیدائش کی وجہ یہاں کے لوگوں کی خوراک ہے، جس میں کچھ نہ کچھ ایسا پایا جاتا ہے۔ اگر یہ معلوم ہو جائے کہ یہ کیا ہے، تو آس پاس کے بے اولاد جوڑوں کی زندگیوں میں خوشیاں آئیں گی۔“

نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے مطابق دنیا میں بیک وقت ایک سے زیادہ پیدائش مجموعی پیدائش کا تقریباً تین فی صد ہوتی ہے، جبکہ یہ نوزائیدہ کی اموات کا چودہ فی صد سبب بھی ہوتی ہے۔ 1950 کی دہائی میں دنیا بھر میں بیک وقت ایک سے زیادہ یا متعدد بچوں کی شرح پیدائش میں کمی آنا شروع ہوئی اور 1970 کی دہائی میں اپنی کم سے کم سطح تک پہنچی، لیکن پھر اس کے بعد سے اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ جڑواں بچوں کی پیدائش کی عالمی شرح خاص طور پر مغربی دنیا میں مصنوعی حمل کی وجہ سے بڑھی ہے۔

اس کے علاوہ جڑواں بچے عام طور پر بڑی عمر کی زیادہ بالغ خواتین کے ہاں پیدا ہوتے ہیں، لیکن کوڈینہی میں ایسا نہیں ہے کیونکہ یہاں شادی کی اوسط عمر اٹھارہ تا بیس سال ہے اور شادی کے بعد بچے کی پیدائش میں تاخیر کرنے کی حکمت عملی پر بھی توجہ نہیں دی جاتی ہے۔

جڑواں بچوں کی پیدائش کے پیچھے ایک اور اہم وجہ پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر سری بیجو کہتے ہیں ”عام طور پر جن خواتین کا قد پانچ فٹ اور تین انچ سے کم ہوتا ہے، ان کے ہاں جڑواں یا ایک سے زیادہ بچے کے جنم کا زیادہ امکان ہوتا ہے اور کوڈینہی میں خواتین کا اوسط قد پانچ فٹ ہے۔“

کوڈینہی کو اب انڈیا میں ’ٹوئن ٹاؤن‘ یا ’جڑواں بچوں کے قصبے‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اگرچہ سائنسدانوں میں اس کے متعلق تجسس پایا جاتا ہے لیکن کوڈینہی والوں کو اس سے زیادہ فرق نہیں پڑتا۔

تاہم حال ہی میں انہوں نے جڑواں بچوں اور ان کے خاندانوں کو رجسٹر کرنے اور مدد فراہم کرنے کے لیے ’ٹوئنز اینڈ کن ایسوسیشن‘ (ٹاکا) نام کی ایک تنظیم قائم کی ہے، جس کا مقصد گاؤں کے جڑواں بچوں کو تعلیم دینے اور ان کے کنبے کو مدد فراہم کرنا ہے۔

اس تنظیم کے صدر کے بیٹے سولہ سالہ انو بھاسکرن نے ٹائمز آف انڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا، ”جب میں پرائمری اسکول میں تھا تو میرے ساتھ تقریباً تیس چالیس جڑواں بچے اسکول میں پڑھا کرتے تھے۔ میرے شرارتی بہن بھائی بھی جڑواں ہونے کا فائدہ اٹھاتے تھے۔ ہمیں دوستوں اور اپنے ٹیچروں کو دھوکہ دینے کے کافی مواقع ملتے تھے۔“

کوڈینہی میں بیس سال سے کم عمر کے ایک جیسے کافی جڑواں بچے ہیں، اس لیے مذاق کا حلقہ وسیع ہو جاتا ہے۔

کوڈینہی کے مقامی پرائمری اسکول میں پڑھنے والی شاہانہ بتاتی ہیں ”کبھی کبھی جب ہمیں شرارت سوجھتی تو ہم لوگوں کو الجھانے کے لیے اپنی اپنی کلاسز بدلنے کی کوشش کرتے تھے۔“

اس قصبے نے ’جڑواں ٹاؤن‘ کی اپنی شناخت کو قبول کر لیا ہے اور انکیں اس پر فخر بھی ہے۔ کوئی اسے اپنے یہاں کے پانی کی خاصیت بتاتا ہے تو کوئی اسے قدرت کا عطیہ کہتا ہے اور کوئی دیوی کا وردان۔۔

اب انہوں نے اس کا جشن منانا بھی شروع کر دیا ہے اور اس کے تحت وہ اپنے جڑواں باشندوں کا سالانہ تہوار مناتے ہیں، جس میں پورے انڈیا سے جڑواں بچے میلے میں شرکت کے لیے کوڈینہی پہنچتے ہیں، جس میں روایتی رقص، موسیقی اور کھانے کا انتظام رہتا ہے۔

دریں اثنا ڈاکٹر کرشنن سری بیجو کوڈینہی کی خوبصورت بستی میں بڑی تعداد میں جڑواں بچوں کی پیدائش کے پیچھے کا معمہ حل کرنے کے لیے کافی ثبوت تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

دنیا بھر میں اوسطاً 1000 بچوں میں سے 4 جڑواں بچے پیدا ہوتے ہیں اور بھارت میں ہر 1000 پیدائش پر 9 جڑواں بچے پیدا ہوتے ہیں لیکن اس پراسرار گاؤں میں 1000 بچوں میں سے 45 بچے پیدا ہوتے ہیں۔ اوسطاً، یہ نائیجیریا کے ایگبو اورا کے بعد دنیا کا دوسرا ہے جسے "دنیا کا جڑواں دارالحکومت” بھی کہا جاتا ہے جہاں 1000 میں سے 145 جڑواں بچے پیدا ہوتے ہیں، اور ایشیا میں پہلا۔

سائنسدانوں اور محققین اسرار کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
برسوں کے دوران، مختلف اداروں کے سائنسدانوں اور محققین کی بہت سی ٹیمیں جو پہلے ہی برازیل اور ویتنام میں ایک مطالعہ پر کام کر رہی ہیں، نے کوڈینہی گاؤں کا دورہ کیا جس میں حیدرآباد میں واقع CSIR-سینٹر برائے سیلولر اور ماڈیولر بیالوجی، کیرالہ یونیورسٹیز آف فشریز اینڈ اوشین اسٹڈیز (KUFOS) شامل ہیں۔ اور یونیورسٹی آف لندن کے ساتھ ساتھ جرمنی کے محققین اور یہاں تحقیق کرنے آئے اور کوڈینہی گاؤں کے معمہ کو حل کرنے کی کوشش کی۔

انہوں نے جڑواں بچوں کے ڈی این اے کے مطالعہ کے لیے کئی بچوں کے تھوک اور بالوں کے نمونے لیے۔ لیکن آج بھی یہ بات ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ اور آج تک سائنسدان بھی اس کو حل نہیں کر سکے۔

پروفیسر ڈاکٹر تھرومالاسوامی ویلاوان، انسٹی ٹیوٹ آف ٹراپیکل میڈیسن کے ایسوسی ایٹ پروفیسر، ٹیوبنگن یونیورسٹی، جو اس تحقیق کے پرنسپل تفتیش کار ہیں، نے کہا کہ مختلف براعظموں سے چار مخصوص کمیونٹیز نے غیر معمولی طور پر بڑی تعداد میں جڑواں بچوں کی پیدائش کی اطلاع دی ہے اور ان کمیونٹیز میں کوڈینہی گاؤں، ہنگ لوک کمیونی شامل ہیں۔ جنوبی ویتنام اور نائیجیریا میں اگبو اورا، برازیل میں کینڈیڈو گوڈو۔

انہوں نے کہا، ”یہ مطالعہ جڑواں بچوں کی وراثت کا تعین کرنے والے جینیاتی عوامل کی نشاندہی کرے گا۔ یکساں جڑواں بچوں کے لیے ابھی تک کوئی معلوم جینیاتی ربط نہیں پایا گیا ہے اور اس رجحان کے پیچھے اصل عنصر کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا ہے۔ مطالعہ کا نتیجہ بنیادی جینیاتی اور ایپی جینیٹک عوامل کو سمجھنے کی بنیاد رکھے گا جو کوڈینہی میں جڑواں بچوں کی اعلٰی شرح کے لیے کلیدی جوابات رکھ سکتے ہیں“

اسی طرح افریقی ملک نائیجیریا کے ایک شہر ایگبو اورا نے معمول سے زیادہ جڑواں بچوں کی غیر معمولی آبادی رکھنے کی وجہ سے شہرت حاصل کی ہے۔ اس شہر میں جڑواں بچوں کی پیدائش کی شرح غیر معمولی طور ہونے کی وجہ سے اسے ’جڑواں بچوں کا شہر‘ کہا جاتا ہے۔

مقامی چیف جیموہ ٹیٹیلوئے کے مطابق، شہر کے ہر خاندان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جڑواں بچوں کی ایک جوڑی یا ایک سے زیادہ جنم لیتے ہیں۔

رائٹرز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جڑواں بچے خاص طور پر یوروبا نسلی گروہ میں عام ہیں، جو نائیجیریا میں غالب ہے۔ 1970 میں ایک برطانوی ماہر امراض نسواں کی طرف سے کی گئی ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ نائجیریا کے جنوب مغربی علاقے میں ہر 1000 پیدائشوں میں جڑواں بچوں کے 50 سیٹ ہوتے ہیں، جو اسے اب تک ریکارڈ کی گئی سب سے زیادہ جڑواں بچوں کی پیدائش کی شرح میں سے ایک بناتا ہے۔

یہاں کے لوگوں کے مطابق بھنڈی کے پتوں کا بطور غذا استعمال زیادہ ہونے کے باعث یہاں جڑواں بچوں کی شرح پیدائش سب سے زیادہ ہے۔

جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق اگبو اورا گاؤں میں واقع اسکولوں میں بھی ہم شکل بچے تعلیم کے حصول کے لیے آتے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ اگبواورا کے رہائیشیوں کے لیے آج بھی ہم شکل بچوں کی پیدائش باعث رحمت ہے۔

اگبو اورا میں واقع ایک اسکول کے طالب علم کیہندے اوئیڈیپو کا کہنا تھا کہ یہ جڑواں بچوں کا دارالحکومت ہے، ہمارے گاؤں میں جڑواں بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے کی وجہ بہت زیادہ بھنڈی کے پتے کھانا ہے، اس کے علاوہ ہم لوگ کھانے میں کھجور والا تیل، پھلیاں اور کیلے کھاتے ہیں۔

طلب علم کا کہنا تھا کہ اگر یہاں آنے والے سیاح بھی بھنڈی کے پتوں کا کھانے میں بہت زیادہ استعمال کریں تو وہ بھی ہم شکل بچوں کے والدین بن سکتے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ قصبے کے دیگر رہائشیوں کا خیال ہے کہ جڑواں بچوں کی پیدائش اروی کی سبزی زیادہ کھانے کی وجہ سے ہے جو تولیدی مادے میں اضافہ کرتی ہے۔

تاہم قصبے میں تعینات گائناکولوجسٹ کا کہنا تھا کہ کسی بھی قسم کی سبزی زیادہ کھانے سے جڑواں بچوں کی کثرت ہے یہ بات تاحال سائنسی اعتبار سے ثابت نہیں ہو سکی ہے۔

ایکوجومی اولارینو اجو کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ خاندانی ورثہ ہوسکتا ہے کیوں کہ یہاں کہ افراد خاندان میں ہی شادیاں کرتے ہیں جس کے باعث امکان ہے کہ خاندانی جینز اس میں موثر کردار ادا کر رہے ہوں۔

ایسا ہی ایک قصبہ یوکرائن میں بھی واقع ہے، جسے ’جڑواں بچوں کا قصبہ‘ کہا جاتا ہے۔ جس کی وجہ یہاں 122 (61 جڑواں) بچوں کی پیدائش ہے۔

یوکرائن کے جنوب مغرب میں واقع اس گاؤں کا نام ’ویلی کایاکوپانیا‘ ہے اور یہاں کی آبادی صرف چار ہزار سے بھی کم افراد پر مشتمل ہے

مقامی کونسلر ماریانا ساوکا کا کہنا ہے کہ 2004ء کے بعد جڑواں بچوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور اب ہر سال دو سے تین جڑواں بچے پیدا ہوتے ہیں

گاؤں والوں کا ماننا ہے کہ گاؤں کے پانی میں بہت زیادہ صحت مند عوامل موجود ہیں جس کی وجہ سے جڑواں بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ پانی کا اثر نہ صرف انسانوں پر پڑا ہے بلکہ جانوروں کے بچے بھی جڑواں ہونے لگے ہیں۔ ایک جڑواں بچے یورجی شیویریا کا کہنا ہے کہ اس کے باپ کا یہ ماننا ہے کہ یہ تمام کمال گاؤں کے پانی کا ہے۔

ذرائع: مختلف ویب رپورٹس۔ ترجمہ و ترتیب: امر گل

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close