شکست پر شکست، پاکستان ٹیم کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟

ویب ڈیسک

گزشتہ سال منعقد ہونے والے کرکٹ ورلڈکپ میں مایوس کن کارکردگی کے بعد پاکستان ٹیم کی مسلسل آؤٹ آف فارم پرفارمنس پر شائقین حیران اور پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ ماہرین نے بھی رواں برس ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ سے قبل گرین شرٹس کی کارکرگی پر تشویش اور مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

شاہین شاہ آفریدی کی قیادت میں پاکستان ٹیم اس وقت نیوزی لینڈ میں موجود ہے جہاں وہ پانچ ٹی ٹوئنٹی میچز پر مشتمل سیریز کھیل رہی ہے۔

اب تک کھیلے گئے چاروں میچوں میں پاکستان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، سیریز میں بالرز کے ساتھ ساتھ بلے بازوں کی کارکردگی بھی انتہائی بھونڈی رہی۔

جمعے کو کرائسٹ چرچ میں کھیلے جانے والے چوتھے ٹی ٹوئنٹی میچ میں پاکستان کو سات وکٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا

اس سیریز کے دوران یہ پہلا موقع تھا، جب پاکستانی ٹیم نے پہلے بلے بازی کی لیکن نتیجہ گذشتہ تین میچز سے قطعی مختلف نہ تھا اور پاکستانی بلے بازوں نے اپنی ناقص کارکردگی کا سلسلہ جاری رکھا

پانچ میچز کی اس سیریز میں پاکستان کو پہلے ہی تین صفر سے شکست ہو چکی ہے اور اب چوتھے میچ میں بھی شکست سے پاکستانی ٹیم کو مزید مشکلات کا سامنا ہے

ادہر پاکستان کرکٹ ٹیم کے ڈائریکٹر مکی آرتھر، ہیڈ کوچ گرانٹ بریڈ برن اور بیٹنگ کوچ اینڈریو پٹک نے اپنے عہدوں سے مستعفی ہو گئے ہیں۔ اپریل 2023 میں مکی آرتھر کو پاکستان مینز کرکٹ ٹیم کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا تھا جبکہ گرانٹ بریڈ برن کو گزشتہ برس کے آغاز میں پاکستان کی قومی ٹیم کا ہیڈ کوچ مقرر کیا گیا تھا

جنوبی افریقہ کے سابق کرکٹر اینڈریو پٹک اپریل 2023 سے پاکستان کے بیٹنگ کوچ تھے۔ مکی آرتھر 2018 سے 2020 تک پاکستان مینز ٹیم کے فیلڈنگ کوچ کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے اکتوبر 2021 تک نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں ہائی پرفارمنس کوچنگ کا کردار ادا کیا۔
پی سی بی کے مطابق ان تینوں نے بورڈ کو جنوری 2024 کے آخر تک اپنی اپنی ملازمتیں چھوڑ دینے کے فیصلے سے آگاہ کیا تھا۔

حالیہ دورہ نیوزی لینڈ کے دوران حال ہی میں کپتانی سے سبکدوش ہونے والے بابر اعظم کے سوا کوئی بھی بلے باز سیریز میں نہیں چل سکا۔ ورلڈکپ میں انتہائی بے کار کارکردگی کے بعد سابق کپتان نے تینوں اننگز میں نصف سینچریاں بنا کر کسی حد تک اچھا پرفارم کیا، لیکن کوئی بھی میچ وننگ اننگ نہ کھیل پائے، جبکہ چوتھے میچ میں وہ بھی ناکام رہے

نیوزی لینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز کے ابتدائی تین میچز میں پاکستان نے کئی تجربات کیے ہیں۔ بابر اعظم کو اوپننگ پوزیشن سے ہٹا کر ان کی جگہ صائم ایوب کو بطور اوپنر منتخب کیا گیا، لیکن پہلے میچ میں نو لک شاٹ سے سب سے داد سمیٹنے کے باوجود وہ تین میچوں میں صرف 38 رنز ہی اسکور کر پائے ہیں

مڈل آرڈر میں بیٹنگ کرنے والے افتخار احمد اور اعظم خان بھی سیریز میں کوئی بڑی اننگز نہیں کھیل سکے ہیں، دونوں نے بالترتیب سات اور نو رنز فی اننگز کی اوسط سے رنز اسکور کیے ہیں۔

ٹیم کے نائب کپتان محمد رضوان اس سیریز میں بطور اوپنر کھیل رہے ہیں لیکن تین میچز میں 56 رنز کی کارکردگی ایسی نہیں کہ اس پر خوش ہوا جا سکے

کرکٹ مبصرین کو جس بات پر سب سے زیادہ تشویش ہے وہ کپتان شاہین شاہ آفریدی اور حارث رؤف کی بالنگ فارم ہے، دونوں نے بالترتیب چار اور سات وکٹیں تو حاصل کی ہیں لیکن رنز روکنے سے قاصر رہے

کسی کے خیال میں شاہین آفریدی کی رفتار کم ہونے سے ان کی بالنگ بے اثر ہو گئی ہے تو کسی نے حارث رؤف کی مسلسل ناقص کارکردگی پر سوال اٹھایا ہے۔

اسکواڈ میں کوالٹی اسپنر کا فقدان اور فیلڈرز کی بدستور کیچز گرانے کی عادت کو بھی کرکٹ مبصرین نے پاکستان کی شکست کی بڑی وجہ قرار دیا ہے۔

سابق کرکٹرز پاکستان ٹیم کی حالیہ کارکردگی سے زیادہ خوش نہیں۔ سابق کپتان اور کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین رمیز راجہ نے سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستانی بالرز کو آڑے ہاتھوں لیا ہے

تیسرے میچ میں شکست کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر انہوں نے کہا کہ ایک ایسے سال میں، جب ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کھیلا جانا ہے، ٹیم کی کارکردگی سے لے کر انتظامی امور تک سب کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔

سابق کپتان راشد لطیف نے بھی پاکستان ٹیم کی کارکردگی پر رائے دیتے ہوئے کہا کہ نیوزی لینڈ کے خلاف بیٹنگ اور بالنگ کے نہ چلنے کے پیچھے بہت سے عوامل کار فرما ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ٹیم مینجمنٹ کھیلنے کے طریقے کو یکسر بدلنا چاہ رہی ہے، جس کی وجہ سے بلے باز ہوا میں زیادہ نہیں کھیل سکتے، اور جب کھیلتے ہیں تو وکٹیں بھی گنوا دیتے ہیں۔

راشد لطیف کے خیال میں پہلی ہی گیند سے تیز کھیلنے کی کوشش نے بلے بازوں کو ذہنی طور پر مفلوج کر دیا ہے اور پاور پلے میں دو وکٹیں گر جانا سب سے بڑی کمزوری ہے۔

بیٹنگ کی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ٹیم مینجمنٹ نے اوپنرز اس لیے تبدیل کیے کیوں کہ دونوں تیز نہیں کھیل پارہے تھے، لیکن اگر ڈیٹا کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ نمبر تین اور نمبر چھ پر ہے۔

ان کے مطابق 2021 سے نمبر تین پر اسٹرائیک ریٹ تقریباً 115 کا رہا ہے اور نمبر چھ پر 110، جو قطعی ٹی ٹوئنٹی کے لحاظ سے اچھا نہیں، بجائے اس کو ٹھیک کرنے کے، مینجمنٹ نے اوپنرز کی کامیاب جوڑی کو ہی الگ کر دیا۔

آل راؤنڈر افتخار احمد کے بارے میں بات کرتے ہوئے راشد لطیف کا کہنا تھا کہ اس سیریز میں ایک مختلف افتخار احمد نظر آرہا ہے، پہلے کہا جاتا تھا کہ بابر اعظم اور محمد رضوان کی وجہ سے انہیں گیندیں کم ملتی ہیں لیکن یہاں گیندیں ملنے کے باوجود وہ اسکور کر نہیں پا رہے۔

انہوں نے افتخار کو خوش دل شاہ اور آصف علی کے لیول کا بلے باز قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں بھی آخری اوورز میں بھیجنا چاہیے، کیوں کہ ان کی حالیہ فارم سے یہی لگتا ہے جیسے وہ چار اوور سے زیادہ وکٹ پر نہیں ٹھہر سکتے۔

پاکستان ٹیم کے سابق کپتان اور آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی جیتنے والی ٹیم کے رکن اظہر علی کی رائے میں مسئلہ پاکستان کی بالنگ کا ہے، جس کی وجہ سے سیریز کے تینوں میچز میں گرین شرٹس کو شکست ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ نیوزی لینڈ ہوم کنڈیشنز سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے لیکن پاکستان کی بالنگ بہت زیادہ اسٹرگل کر رہی ہے۔

اظہر علی سمجھتے ہیں کہ شاہین شاہ آفریدی اور حارث رؤف کے نیوزی لینڈ کی وکٹوں پر نہ چلنے کی وجہ سے پاکستان کے خلاف تمام میچز میں بڑا اسکور ہوا ہے۔

ان کے مطابق، ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں جب بھی 200 سے زائد کا اسکور ہوتا ہے تو اس کا تعاقب کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اسکوربورڈ پر رنز ہوجائیں تو اس سے بیٹنگ پر دباؤ بڑھتا ہے، اور یہی پاکستان ٹیم کے ساتھ ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی بھی پلان کے چلنے کے لیے ضروری ہے کہ کنڈیشنز کو جانچ کر اور مخالف ٹیم کو دیکھ کر اسے بنایا جائے، نیوزی لینڈ کو تینوں میچ جیتنے کا کریڈٹ دینا ہوگا، جس نے جو پلان بنایا، اس پر عمل بھی کیا۔

تیسرے میچ میں سینچری اسکور کرنے والے کیوی اوپنر فن ایلن کی مثال دیتے ہوئے اظہر علی نے کہا کہ ایلن نے تمام میچز میں ٹیم کو اچھا اسٹارٹ دیا، جس سے بعد میں آنے والے بلے بازوں نے فائدہ اٹھایا۔

انہوں نے ٹیم کو مشورہ دیا کہ کپتان کو چاہیے کہ ٹاس جیتنے کی صورت میں پہلے بیٹنگ کریں تاکہ بلے باز اچھا ٹارگٹ سیٹ کریں، جس کا دفاع کر کے بالرز ناکامیوں کے سلسلے کو بریک لگا سکیں۔

سابق کپتان راشد لطیف نے بھی بالرز کو اس سیریز میں شکست کا ذمہ دار قرار دیا ہے، نئے کپتان شاہین شاہ آفریدی کی بالنگ اسپیڈ کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کپتانی کے بعد سے وہ اچھی بالنگ نہیں کر پارہے ہیں، جس کی وجہ ان کو بہت جلد اہم ذمہ داری دینا بھی ہوسکتی ہے۔

ان کے خیال میں جب پچاس اوورز کے ورلڈ کپ میں حارث رؤف اور اُسامہ میر نہیں چل سکے تھے تو ان سے ٹی ٹوئنٹی میں امید لگانا ان کے ساتھ زیادتی تھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close