’مائیکرو پلاسٹک‘ صحت کے لیے ایک نیا چیلنج

عارفہ رانا

پلاسٹک، ہماری زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔۔ اور یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ پلاسٹک کو تلف کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ پلاسٹک کے آدھے ملی میٹر سے چھوٹے ٹکڑے، جو انسانی آنکھ سے دکھائی نہیں دیتے، ان کو مائیکرو پلاسٹک کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ ہمیں یہ ٹکڑے دکھائی نہیں دیتے، اس لیے یہ انسانی جسم میں کسی نہ کسی ذریعے سے داخل ہو جاتے ہیں اور بے شمار بیماریوں کی وجہ بنتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق کسی بھی انسانی جسم میں لگ بھگ ایک ٹیبل ٹینس بال جتنا مائیکرو پلاسٹک موجود ہوتا ہے اور یہ انسانی جسم کے اہم اعضا جن میں جگر، گردے، دل اور دماغ شامل ہیں، کو متاثر کرتا ہے۔

مائیکرو پلاسٹک کو دو قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک تو وہ قسم ہے کہ جو ہماری زندگی کو بہت قریب سے متاثر کرتی ہے اور ہماری روز مرہ کی ان اشیا میں شامل ہوتی ہے، جن کا مرکزی جز مائیکرو بیڈز ہوتے ہیں، جیسے ٹوتھ پیسٹ یا شاور جیل وغیرہ۔ اور دوسری قسم کا پلاسٹک یا تو پلاسٹک سے بنی اشیا کے زیادہ استعمال سے وجود میں آتا ہے (جیسا کہ گاڑیوں کے ٹائرز کی سڑک پر ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے ہوا میں شامل ہونے والا مائیکرو پلاسٹک)۔ یا پھر ان صنعتوں کے فضلے کو بہتے پانی میں ڈال دینے سے وجود میں آتا ہے، جہاں پر پلاسٹک کی اشیاء تیار کی جاتی ہیں۔

مائیکرو پلاسٹک بے شک بہت سی اشیاء کو مفید بناتا ہے لیکن چونکہ یہ پلاسٹک کی ہی ایک قسم ہے، اس کے صحت پر منفی اثرات سے آپ انکار نہیں کر سکتے۔ ہاں البتہ اس کے ماخذ کے مختلف ہونے سے اثرات مختلف ہوتے ہیں۔ مثلا سکرب یا جلد کو چمکانے والی اکثر مصنوعات میں شامل مائیکرو بیڈز بھی مائیکرو پلاسٹک کی ہی ایک شکل ہے، جس کا زیادہ استعمال ہماری جلد کو متاثر کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ہم اکثر پانی کی ڈسپوزیبل بوتل جو بازار سے خریدتے ہیں (وہ ون ٹائم یوز ہوتی ہے) اس میں پانی بھر کر اس کو اپنے ریفریجریٹر کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ یہ جانے بنا کہ ایک سے زیادہ بار اس کو استعمال کرنے سے ہم اس میں موجود مائیکرو پلاسٹک کو اپنے ہاتھوں سے اپنے جسم میں دھکیل رہے ہیں۔ اس لیے فریج کے لیے شیشے کی پانی کی بوتل استعمال کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ خواتین جو سبزیوں کی کٹنگ کے لیے بورڈ استعمال کرتی ہیں، وہ بھی اس کا ماخذ ہے۔ اس سے معدہ اور جگر کے امراض لاحق ہو جاتے ہیں۔ دوسری قسم کے مائیکرو پلاسٹک جو پلاسٹک آمیزش والی اشیاء کے استعمال سے ہوا میں شامل ہو جاتا ہے، یہ دل کی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ اس کے علاوہ سانس کی بیماری، الرجی اور الزائمر وغیرہ بھی اس کی وجہ سے لاحق ہو سکتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ روزمرہ کے استعمال میں مائیکرو پلاسٹک سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟ ہمیں چاہیے کہ پلاسٹک بوتلوں کی جگہ گھر میں شیشے کی بوتلیں استعمال کریں۔ ڈسپوزیبل پلاسٹک یا سنگل یوز کی اشیاء کی جگہ سرامکس یا شیشے یا دھات سے بنے برتن استعمال کریں۔ اس کے علاوہ لباس، جس کی بنائی میں مائیکرو پلاسٹک شامل ہوں، کم سے کم استعمال کریں۔ باہر جائیں تو چائے یا کافی کے لیے پلاسٹک کے کپ استعمال نہ کریں۔ پلاسٹک میں پیکڈ فوڈ نہ خریدیں، تازہ کھانے استعمال کی کوشش کریں۔ ایسی بیوٹی پراڈکٹس استعمال کرنے سے پرہیز کریں، جن میں مائیکرو بیڈز استعمال کیے گئے ہوں۔ گھریلو اشیاء میں سنتھیٹک یا پولی ایسٹر کا استعمال ترک کر دیں۔ اگر پلاسٹک کی کوئی چیز تلف کرنی ہے تو اس کے لیے مناسب طریقہ کار استعمال کریں۔

مائیکرو پلاسٹک ہمارے لیے ایک چھپا ہوا خطرہ ہے، جو ہمیشہ ہمارے اردگرد میں موجود ہے۔ اس کے صحت پر منفی اثرات کم کرنے کے لیے ہمیں اپنے روزمرہ کے معمولات میں تبدیلیاں کرنے ہوں گے اور آگاہی پیدا کرنی ہوگی کہ ہمارا ہر ایک عمل، چھوٹا ہو یا بڑا، ہمارے ماحول اور صحت کو کیسے متاثر کر رہا ہے۔ ہمیں اپنی عملی زندگی میں پلاسٹک کا استعمال کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہم ایک صاف اور صحت مند مستقبل کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close