انسپکٹر ذیشان کاظمی: کراچی آپریشن کے ’انکاؤنٹر اسپیشلسٹ‘ کا انکاؤنٹر کس نے اور کیسے کیا۔۔

جعفر رضوی

”لاش پر صرف ایک گولی کا نشان تھا۔ گولی آنکھ میں لگی اور سر کی جانب سے باہر نکل گئی تھی۔ جنھیں سب ذیشان کا ’قاتل‘ سمجھتے ہیں انھوں نے نہیں مارا تھا۔“

پولیس افسر نے اپنے سابق ساتھی کے قتل پر بلا جھجھک تبصرہ کیا۔ یہ گفتگو انسپکٹر ذیشان کاظمی کے قتل کے بارے میں ہو رہی تھی۔

کراچی کے سب سے خطرناک سمجھے جانے والے تھانوں میں سے ایک کی عمارت کے عقبی حصّے کے ایک ’کمرۂ خاص‘ میں ہونے والی یہ ملاقات میری فرمائش پر ہو رہی تھی۔

مجھے اس گفتگو میں اپنے دوست پولیس افسر کی بہت سی باتوں سے اختلاف تھا مگر میں ایک بات سے بھرپور متفق تھا: ’ذیشان کو سیاسی مخالفین نے نہیں مارا۔‘

تو پھر ’کراچی آپریشن کلین اپ‘ کے سب سے نامور کرداروں میں سے ایک اور ملک کی تاریخ کے چند مشہور ترین پولیس افسران میں سب سے نمایاں، سخت گیر مگر انتہائی متنازع پولیس افسر انسپکٹر ذیشان کاظمی کو کس نے اور کیوں قتل کیا؟

آپ کی طرح میں بھی یہی جاننا چاہتا تھا۔۔

اسی لیے اُس پولیس افسر سے ملنے اُس تھانے کے ’کمرۂ خاص‘ تک پہنچا تھا۔

اس ملاقات سے قبل اگرچہ میں کسی حد تک یہ تو جان چُکا تھا کہ ایک نہیں بلکہ دو، دو انتہائی خطرناک سیاسی عسکریت پسند قُوّتوں کے نشانے پر ہونے کے باوجود ذیشان کاظمی کے ’قتل کا انتظام‘ سیاسی قُوّتوں نے نہیں کیا تھا

مگر پھر بھی میں اپنی کچّی پکّی معلومات کی تصدیق اپنے کسی قابلِ بھروسہ اور قابلِ اعتبار ’ذریعے‘ سے کرنا چاہتا تھا۔

اسی لیے پولیس افسر سے یہ سنتے ہی کہ ’ذیشان کو سیاسی مخالفین نے نہیں مارا‘ میں نے بڑے اشتیاق اور اضطراب سے پوچھا، ”پھر کس نے مارا ذیشان کو؟“

جواب میں پولیس افسر نے کہا ”چائے پیو، ٹھنڈی ہو رہی ہے۔“

اس افسر نے نہیں بتایا مگر میں آپ کو بتاتا ہوں کہ انسپکٹر ذیشان کاظمی کو کس نے، کیوں اور کیسے مارا۔ مگر پہلے یہ بتاتا ہوں کہ انسپکٹر ذیشان کاظمی تھے کون؟

انسپکٹر ذیشان کاظمی 14 اپریل 1965 کو محکمۂ آثارِ قدیمہ کے افسر بیدار کاظمی کے گھر پیدا ہوئے۔ یہ گھر کراچی کے علاقے فیڈرل کیپیٹل ایریا (ایف سی ایریا) میں واقع تھا۔ یہ علاقہ زیادہ تر وفاقی محکمہ جات کے سرکاری افسران کا رہائشی علاقہ ہے، جہاں سینکڑوں کی تعداد میں فلیٹس یا اپارٹمنٹس قائم ہیں اور کسی زمانے میں یہ محلّہ کراچی کے وسطی ضلع میں متوسط طبقے کی قدرے بہتر آبادیوں میں شمار ہوتا تھا۔

ذیشان کاظمی کے قریبی اور خاندانی ذرائع نے مجھے بتایا کہ ذیشان تین بہنوں اور چار بھائیوں کے گھرانے میں پیدا ہوئے اور بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے۔

گورنمنٹ بوائز سکول ایف سی ایریا سے ابتدائی تعلیم اور پھر بطور پرائیویٹ امیدوار انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن کرنے کے بعد خاندانی ذرائع کے مطابق ذیشان کاظمی 1986 میں سندھ ریزرو پولیس (ایس آر پی) فورس میں بطور اے ایس آئی بھرتی ہوئے اور پولیس کی ملازمت کے آغاز میں کراچی سے باہر (اندرونِ سندھ) خدمات انجام دیتے رہے۔

انہی ذرائع کے مطابق ذیشان کاظمی 1991 میں سب انسپکٹر اور پھر 1993 میں انسپکٹر کے عہدے تک جا پہنچے۔

کراچی میں بطور ایس ایچ او سب سے پہلے وہ کیماڑی کے قریب واقع تھانہ ’جیکسن‘ میں تعینات کیے گئے۔ پھر مختلف تھانوں میں انھیں ایس ایچ او لگایا جاتا رہا، جن میں ضلع وسطی کا تھانہ ناظم آباد، ضلع جنوبی کے تھانے گارڈن اور درخشاں جبکہ ضلع شرقی کا تھانہ کھوکھرا پار شامل ہیں۔

خاندانی ذرائع کے مطابق انہیں پولیس کی ملازمت کے دوران ’بہادری‘ کے مظاہرے پر قائدِاعظم پولیس میڈل اور پریذیڈنٹ پولیس میڈل سے بھی نوازا گیا۔

”ذیشان ہاکی کے کھیل میں دلچسپی رکھتے تھے لیکن ویڈیو گرافی کے بہت شوقین تھے۔ میوزک بھی سنتے تھے۔ اچھی غذا، بہترین کپڑے، عمدہ گاڑی، میوزک (قوّالی وغیرہ)، فنونِ لطیفہ (شاعری، ڈرامہ، اداکاری وغیرہ) سے بھی کافی شغف تھا۔ فنکار (حسّام قاضی جیسے اداکار) اُن کے ذاتی دوست تھے۔ ذیشان کا جنرل نالج بھی بہت اچھا تھا۔“

تو سوال یہ ہے کہ زندگی کی ان تمام لطافتوں سے بھرپور ذیشان کاظمی ایک سخت گیر اور انتہائی متنازع پولیس افسر کے روپ میں کیسے ڈھل گئے؟

دراصل جب ذیشان کاظمی بطور ایک سخت گیر پولیس افسر کراچی کے شہری افق پر ابھرے تو یہ 1992 میں شروع ہونے والے آپریشن کلین اپ کا زمانہ تھا، جسے ’کراچی آپریشن‘ کا نام دیا گیا۔

1990 کی اس پُرتشدد ترین دہائی میں کراچی میں قتل و غارت کا یہ حال تھا کہ نہ مقتول کو معلوم ہوتا تھا کہ قاتل کون ہے اور نہ قاتل کو پتہ لگتا تھا کہ مقتول کو مارنے کا ’حکم‘ کس نے اور کیوں دیا تھا۔

یہ خبر بھی پڑھیں:


شعیب خان: کراچی انڈر ورلڈ کا وہ کردار جس کے دبئی تک پھیلے ’جوئے کے نیٹ ورک‘ پر ہاتھ ڈالنے کے لیے گورنر کو آرمی چیف تک جانا پڑا


اس صورتحال میں طاقت کا جواب طاقت سے دینے کا فیصلہ ہوا۔

وزیر داخلہ نصیر اللّہ بابر نے بے نظیر بھٹّو سے آپریشن کرنے کے لیے مکمل فری ہینڈ لیا، جس کے بعد انتہائی متنازع، مشکوک اور ایسے پولیس مقابلوں کا سلسلہ شروع ہوا، جنہیں شہری و سیاسی حلقے جعلی یا فرضی مقابلہ قرار دیتے تھے۔

دوسری طرف آپریشن کرنے والے پولیس افسران پر حملوں کا بھی آغاز ہوا۔۔ مگر، خوف کا جواب خوف سے دینے کے اس فیصلے نے وہ کیا، جسے انگریزی میں ’اوپننگ دا گیٹ آف ہیل‘ کہا جاتا ہے۔

دونوں جانب یعنی پولیس اور سیاسی طور پر متحرک جرائم پیشہ اور دہشت گرد عناصر کے درمیان ایسی جنگ کا آغاز ہوا جو اگلے کئی برس تک جاری رہی اور یہی وہ زمانہ تھا، جب انسپکٹر ذیشان کاظمی آپریشن کرنے والی پولیس ٹیم کا حصّہ بنے۔

دراصل جنرل نصیر اللّہ بابر اور ڈاکٹر شعیب سڈل کی ’سخت گیر اور جارحانہ حکمت عملی‘ کے نتیجے میں شہر میں سخت گیر اور بارعب پولیس افسران کی ایک ایسی ٹیم بنتی چلی گئی، جس نے سیاسی حمایت یافتہ عسکریت پسندوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔

ایک افسر نے کہا کہ اچانک پولیس ’ٹریگر ہیپی‘ ہو گئی یعنی جہاں گرفتاری یا چھاپے کی کارروائی کی جاتی تھی، وہاں سب تیار رہتے تھے کہ اگر مزاحمت کا سامنا ہو تو گولی کا جواب گولی سے ہی دیا جائے۔ عدالتی زبان میں کہا جائے تو ’ماورائے عدالت‘ پولیس کارروائیاں شروع ہو گئیں۔

اس صورتحال کے بارے میں ایک سرکاری عہدیدار نے بتایا ”ظاہر ہے کہ اس کے لیے فیلڈ میں جان ہتھیلی پر رکھ کر کام کرنے والے پولیس افسران کو پشت پناہی درکار تھی، لہٰذا سرکار کی جانب سے مکمل پشت پناہی فراہم کی گئی۔“

پولیس فورس میں انسپکٹرز اور سب انسپکٹرز کی سطح کے افسران کی رسائی اس قدر بڑھ گئی کہ وہ اپنی مرضی سے تھانوں میں تعینات ہونے لگے بلکہ کام بھی اپنی مرضی کے افسران کے ساتھ کرنے لگے۔

ڈی آئی جی کی سطح کے افسران اپنے ماتحت تھانیداروں کے سامنے بے بس دکھائی دینے لگے تھے۔ ”ایسے حالات تھے کہ اگر ایس ایچ او کو پسند نہیں تو اُس کے ایس ایس پی کو ٹرانسفر کر دیا جاتا تھا۔“

حالات ایسے ہوگئے کہ کراچی دنیا کے چند خطرناک ترین شہروں میں شمار ہونے لگا۔

ماورائے عدالت ہلاکتوں اور متنازعہ و مشکوک پولیس مقابلوں میں سیاسی جماعتوں کے عسکری بازو سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں کارکنان مارے گئے۔

مگر، ایسا ہرگز نہیں تھا کہ زیادتی صرف پولیس کی طرف سے ہوتی رہی۔ مسلح جتھّوں کی طرف سے بھی منظم مہم کے انداز میں جس طرح پولیس اہلکاروں، سیاسی کارکنوں اور مخالفین کو قتل کیا گیا، اس کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔

سندھ پولیس کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں 1991 سے 2014 تک دو ہزار سے زائد اہلکار و افسران کو گھات لگا کر، ہدف بنا کر یا فرائض کی ادائیگی کے دوران ہلاک کیا گیا، جن میں سے ایک محتاط اندازے کے مطابق لگ بھگ ساڑھے چار سو کے قریب افسران و اہلکار صرف کراچی آپریشن کی نذر ہوئے۔

ہر آئے دن پولیس افسران پر حملے ہوتے، کبھی گھات لگا کر کبھی ہدف بنا کر اُنھیں قتل کر دیا جاتا۔ کبھی تھانے سے نکل کر گھر جاتے ہوئے کبھی گھر سے تھانے جاتے ہوئے پولیس اہلکاروں اور افسروں کو شناخت کرکے انھیں مار ڈالا جاتا یا اغوا کرکے شدید تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کردیا جاتا، پھر ان کی بھی بوری بند لاشیں برآمد ہوتی تھیں۔

سندھ پولیس کے ایک حاضر سروس ڈی آئی جی کے مطابق ”ڈی آئی جی شعیب سڈل کے زمانے میں درجنوں افسران کراچی آپریشن میں نمایاں کارکردگی دکھا کر اور جان پر کھیل کر نامور افسر بنے۔ مگر آپ اس سے اندازہ لگائیں کہ ان درجنوں نامی گرامی افسروں میں سے اب صرف چار افسر زندہ بچ سکے ہیں۔“

کراچی آپریشن کے ایک نامور کردار پولیس افسر سرور کمانڈو نے حال ہی میں ایک سوشل میڈیا انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ اس وقت ایک ایک دن میں اوسطاً 72 افراد مارے جانے لگے تھے۔

سرور کمانڈو نے کہا ”پولیس افسران کو بڑے بال رکھنے، شناختی دستاویزات (سروس کارڈ وغیرہ) موزے میں چھپانے اور گھر اور کام پر جاتے وقت خاص احتیاط کا حکم دیا جانے لگا تھا (تاکہ کوئی انھیں پہچان کر حملہ یا قتل نہ کر دے)۔“

اس آپریشن میں جو نامی گرامی پولیس افسران اب بھی شہریوں کو یاد ہیں، ان میں ایس ایچ او نیو کراچی بہادر علی، راؤ انوار، چوہدری اسلم، توفیق زاہد، غضنفر کاظمی، سجاد حیدر، بہاؤالدین بابر، ناصرالحسن اور سرور کمانڈو وغیرہ شامل ہیں۔

مگر انسپکٹر ذیشان کاظمی ان افسران میں سب سے بڑا نام بن کر ابھرے۔ وہ اُس وقت تک انسپکٹر بن چکے تھے اور کئی تھانوں میں ایس ایچ او تعینات رہے۔

سابق ایس پی فیاض خان نے مجھے بتایا ”ذیشان کاظمی اُس وقت اس قدر طاقتور ہو چکے تھے کہ اُن کی رسائی براہِ راست وزیر داخلہ نصیر اللّہ بابر تک تھی۔“

جہاں انسپکٹر ذیشان کاظمی تعینات ہو جاتے، وہاں جرائم پیشہ افراد یا عسکریت پسند تو خطرہ محسوس کرتے ہی تھے، مگر شہری حلقے بھی اس پریشانی کا شکار دکھائی دیتے کہ اب اس علاقے میں آئے دن پولیس کارروائیاں، چھاپے، گرفتاریاں، مقابلے ہوں گے۔

پولیس کی اسپیشل برانچ میں تعینات ایک سینیئر افسر کا کہنا ہے ”ذیشان کاظمی طاقت کا بے جا استعمال بھی کرتے رہے۔ مثلاً ذیشان نے تو اپنے (تھانوں کے) علاقے میں جینز اور کلف والی شلوار قمیض پہننے پر پابندی لگا دیتے تھے۔“

”اس کا آپریشن سے کیا تعلق تھا؟“ افسر نے سوال کیا۔

فوج، خفیہ اداروں اور وزیر داخلہ تک براہِ راست رسائی اور تعلقات نے ذیشان کاظمی کو ایسی طاقت دی کہ خود وہی ’خوف و دہشت کی علامت‘ بن گئے۔

”ذیشان کاظمی ایسے افسر بن گئے کہ جس ملزم کو چاہیں گرفتار کر لیں اور جس افسر کو چاہیں، تبدیل کروا دیں۔ وہ فوج اور خفیہ اداروں کے اعلیٰ ترین حُکام سے براہ راست رابطے میں رہتے تھے۔“

اور انہوں نے کراچی شہر میں کئی انتہائی متنازع اور مشکوک پولیس مقابلوں میں وہ کردار ادا کیا، جس نے سیاسی حلقوں میں انسپکٹر ذیشان کاظمی کو ’انکاؤنٹر اسپیشلسٹ‘ کی پہچان دی۔ اس دوران خود ذیشان کاظمی پر بھی کئی بار قاتلانہ حملے ہوئے، مگر ہر بار وہ بچ نکلتے۔

سیاسی قُوّتوں کے عسکری بازو سے جڑے کئی نامی گرامی اراکین ذیشان کے ہاتھوں ایسے پولیس مقابلوں میں ہلاک ہوئے، جنہیں شہری و سیاسی حلقے جعلی یا فرضی مقابلہ کہتے رہے۔

ذیشان کاظمی کی ان ’سرگرمیوں‘ پر انہیں تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا اور عدالتوں سے ان کی ’سرزنش‘ کا سلسلہ بھی جاری رہا اور کئی بار عدالتی احکامات پر انہیں معطل بھی کیا گیا۔

ایک خاندانی ذریعے نے ذیشان کاظمی کے اس طرزِ عمل کا دفاع بھی کیا۔ ”انہوں نے سختی ضرور کی مگر کچھ ناجائز نہیں کیا۔ جو بھی کیا جرم کے خلاف کیا۔ قانون کے تحت جس کے بھی خلاف کارروائی کی وہ بے گناہ یا عام شہری نہیں تھے۔۔۔ قانون شکن، جرائم پیشہ یا دہشتگرد تھے۔“

تب تک ذیشان کاظمی اتنے متنازع ہو چکے تھے کہ اگر اُن پر دہشتگرانہ حملہ ہو بھی جاتا تو کسی کو بھی تعجب نہ ہوتا مگر ذیشان کاظمی کا قتل اس وجہ سے ہرگز نہیں ہوا۔

تو پھر ذیشان کاظمی کو کس نے اور کس وجہ سے قتل کروایا؟ دراصل حالات و واقعات نے ذیشان کاظمی کے قتل کے کئی اور اسباب بھی پیدا کیے۔

ابھی کراچی آپریشن اور اس سے جڑے سارے سیاسی تنازعات چل ہی رہے تھے کہ سیاست نے ایک نئی کروٹ لی۔

اب (اس وقت کی) وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو، اپنی بہن کی حکومت کے لیے ایک ’نیا مسئلہ‘ بن کر سامنے آئے۔

میر مرتضیٰ بھٹّو 18 اکتوبر 1993 کے انتخابات میں پی ایس 31 لاڑکانہ کے اپنے آبائی ضلع سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر رکنِ سندھ اسمبلی منتخب ہوئے اور کئی برس کی خود ساختہ جلاوطنی ترک کر کے وطن واپس پہنچے تو یہاں اُن کی بہن اور سیاسی حریف بے نظیر بھٹّو وزیر اعظم تھیں۔

وطن واپسی پر مرتضیٰ بھٹّو کو بے نظیر بھٹّو کے حکم پر دہشت گردی کے الزامات کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ جب مرتضیٰ بھٹّو رہا ہوئے تو انہوں نے بہن کے مقابلے میں اپنی سیاسی قوّت مجتمع کرنے کی غرض سے اپنے انداز کی سیاست کا آغاز کیا۔ وہ ریاستی اور سرکاری اداروں کو اپنے والد ذوالفقار علی بھٹّو کا قاتل سمجھتے اور کہتے رہے۔ نجی ملاقاتوں میں وہ فوج پر کھلی تنقید کرتے اور اپنی تقریروں اور عوامی خطابات میں وہ ہمیشہ بالخصوص پولیس جیسے اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔

ملک سے ترکِ وطن کر جانے والے ایک اور پولیس افسر سابق ایس پی لیاری فیاض خان نے کہا ”تھانے جا کر اپنے حامیوں کو چھڑوا لینا تو اُن کا معمول بن گیا تھا۔“

سابق ڈی آئی جی شعیب سڈل نے کہا کہ ایسے ماحول میں میر مرتضیٰ بھٹّو اور اُن کے ساتھی جدید اسلحے سے لیس اپنے محافظین کے ساتھ آزادانہ نقل و حرکت کرتے تھے اور تھانوں یا پولیس مراکز میں یہ زور زبردستی بڑھتی جارہی تھی۔

”ہم نے بڑی مشکل سے کراچی میں امن قائم کیا تھا۔ لیکن چونکہ صورتحال بگڑ رہی تھی اس لیے فیصلہ ہوا کہ مرتضٰی بھٹّو اور اُن کے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا جائے اور میں نے حکم دیا کہ جو بھی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہو، اُسے گرفتار کر لیا جائے۔ پھر وزیر اعظم سے مشورے کے بعد میرے حکم میں اتنی ترمیم ضرور ہوئی کہ میر مرتضٰی کے علاوہ اُن کا جو بھی ساتھی ہو، گرفتار کر لیا جائے۔“ شعیب سڈل نے انکشاف کیا۔

گرفتاری کے احکامات ملتے ہی پولیس کی جانب سے مرتضیٰ بھٹّو کے ساتھیوں کی رہائش گاہوں اور ٹھکانوں پر چھاپوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ مرتضیٰ بھٹّو کے ساتھیوں میں پولیس کو مطلوب سب سے نامور اور نمایاں شخص تھے علی سنارا۔

کراچی کے جنوبی ضلع میں اُس وقت کی پولیس سروس کے ایک اہم افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ریاستی اداروں کو اطلاع اور شبہ تھا کہ علی سنارا کسی غیر ملکی ادارے سے رابطے میں ہیں۔

ایک حساس پوسٹنگ پر تعینات رہنے والے ایک افسر نے بتایا کہ اُس وقت تک راکٹ حملوں، بم دھماکوں اور شاہ بندر کیس سمیت دہشت گردی سے جڑی کئی وارداتوں کے اہم مگر ملکی سلامتی کے لیے انتہائی نقصان دہ سمجھے والے کئی واقعات رونما ہو چکے تھے۔

علی سنارا ایسے ہی کئی واقعات میں بطورِ ملزم نامزد تھے اور ریاستی اداروں اور پولیس کو مطلوب تھے۔

کراچی پولیس کے ایک سابق افسر کے مطابق ”ان حالات میں ذیشان کاظمی نے 16 ستمبر 1996 کو علی سنارا کو کراچی کے جنوبی علاقے میں تھانہ عید گاہ کی حدود سے گرفتار کر لیا مگر اندیشہ تھا کہ الذوالفقار یا مرتضیٰ بھٹّو کے ساتھی اس کے ردعمل میں کوئی کارروائی کر کے علی سنارا کو چھڑوانے کی کوشش کریں گے۔ لہٰذا، ذیشان کاظمی، علی سنارا کو لے کر کراچی آپریشن سے ہی شہرت حاصل کرنے والے ایک پولیس افسر بہاؤالدین بابر کے پاس پہنچے جو اُس وقت نیو کراچی میں تھانیدار تھے تاکہ علی سنارا کی رہائی کی کوئی کارروائی ہو تو ناکام رہے۔“

علی سنارا کی گرفتاری پر مرتضیٰ بھٹّو نے پولیس کے خدشات کے عین مطابق کارروائی کی۔ سابق ڈی آئی جی شعیب سڈل نے کہا ”وہ تو آپ کو پتا ہے ناں کہ انہوں (مرتضی بھٹّو اور اُن کے ساتھیوں) نے علی سنارا کی گرفتاری پر بھی تھانوں اور پولیس مراکز پر دھاوا بولا تھا۔“

شعیب سڈل کے مطابق مرتضیٰ بھٹّو اور اُن کے ساتھی علی سنارا کی تلاش میں پہلے کراچی پولیس کے ڈسٹرکٹ ساؤتھ ہیڈکوارٹرز پہنچے۔ ایک اور افسر کے مطابق ”جب انہیں علی سنارا نہیں ملا تو مرتضیٰ بھٹّو اور اُن کے ساتھی سی آئی اے سینٹر صدر پہنچے۔ علی سنارا وہاں بھی نہیں ملے مگر تب تک شدید بپھر جانے والے مرتضیٰ بھٹو کے ان حامیوں نے پولیس اہلکاروں کو زدوکوب بھی کیا۔“

ایک سابق افسر نے مجھے بتایا ”چونکہ کراچی آپریشن کے دوران سینکڑوں پولیس مقابلے رونما ہوچکے تھے جن میں پولیس کے ہاتھوں ماورائے عدالت مارے جانے والوں کی بڑی تعداد سیاسی کارکنان کی ہوتی تھی اور ان مقابلوں میں انسپکٹر ذیشان کاظمی ہر آئے دن شریک ہوتے تھے اور علی سنارا کو بھی ذیشان کاظمی نے اٹھایا تھا لہٰذا مرتضی بھٹّو کو خدشہ تھا کہ کہیں علی سنارا کو بھی کسی جعلی پولیس مقابلے میں نہ مار دیا جائے۔“

حساس پوسٹنگ پر تعینات رہنے والے ایک افسر نے بتایا کہ اس کے بعد اگلے روز صبح کراچی کے جنوبی ضلع میں واقع کراچی جم خانہ اور سندھ اسمبلی کی عمارت کے قریب دو مختلف بم دھماکے ہوئے۔

”ان کا پرچہ (ایف آئی آر) تو نامعلوم افراد کے خلاف درج ہوا مگر شبہے کی سوئی الذوالفقار کے گرد گھومنے لگی اس شک پر کہ دونوں دھماکے دراصل علی سنارا کی گرفتاری کا ردعمل ہیں۔“

کراچی کے جنوبی اور متموّل علاقے کلفٹن میں واقع بھٹو خاندان کی رہاشگاہ 70 کلفٹن کے علاوہ باقی تمام مقامات پر مرتضٰی بھٹّو کے مطلوب ساتھیوں کے ٹھکانوں پر پولیس کی جانب سے چھاپوں کا سلسلہ جاری رہا۔

اسی کشیدہ صورتحال میں جمعہ 20 ستمبر کی تاریخ آئی، جب مرتضیٰ بھٹو کا قافلہ روک کر اُن کے ساتھیوں کی گرفتاری کی کوشش میں پولیس اور مرتضیٰ بھٹو کے ساتھیوں کے درمیان مسلح، مگر انتہائی متنازع اور مشکوک جھڑپ ہو گئی جس کا نتیجہ مرتضیٰ بھٹو سمیت نو افراد کی ہلاکت کی شکل میں نکلا۔

اس واقعے کے ڈیڑھ ماہ بعد پانچ نومبر 1996 کو (اس وقت کے) صدر پاکستان سردار فاروق احمد خان لغاری نے بینظیر بھٹّو کی حکومت کو برطرف کر دیا اور ان پر جو الزامات عائد کیے گئے، ان میں ماورائے عدالت قتل اور اس ضمن میں خود اُن کے بھائی میر مرتضٰی بھٹّو کے قتل کا حوالہ بھی دیا گیا۔

مرتضیٰ بھٹو قتل کیس میں ڈی آئی جی شعیب سڈل، واجد درّانی اور میر مرتضیٰ کی ہلاکت کے موقع پر موجود یا اس دوران تعینات رہنے والے تمام پولیس افسران بھی اپنے عہدوں سے برطرف کر دیے گئے۔

مرتضیٰ بھٹّو کی ہلاکت کے وقت موقع پر موجود یا اس معاملے میں کسی بھی طرح سے متعلق کئی پولیس افسران اور اہلکاروں کو اس ہلاکت کے الزام میں گرفتار بھی کر لیا گیا مگر نامزد ہونے کے باوجود ذیشان کاظمی گرفتار نہیں ہوئے اور ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست مسترد ہونے کے بعد وہ احاطۂ عدالت سے فرار ہو گئے، جس کے بعد عدالت نے انہیں ’مفرور‘ قرار دے دیا۔

’ڈان اخبار کے مطابق تین ستمبر 2003 کو ملازمت سے قصداً غیرحاضر رہنے کی پاداش میں ذیشان کاظمی کو محکمہ جاتی کارروائی کے تحت پولیس کی ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔

اب ذیشان کاظمی کا مشکل وقت شروع ہوا۔ وہ کئی مشکلات میں ایک ساتھ گِھر گئے۔

انہیں پہلا خطرہ اُن عسکریت پسند حلقوں سے تھا، جن کے کئی اراکین کراچی آپریشن کے دوران ’پولیس مقابلوں‘ میں ذیشان کے ہاتھوں مارے جا چکے تھے۔ دوسرا خطرہ ’الذوالفقار‘ اور مرتضیٰ بھٹو کے وہ ساتھی تھے، جو ذیشان کو علی سنارا کی گرفتاری اور مرتضیٰ بھٹو کے قتل کا ذمہ دار سمجھتے تھے اور حساب برابر کرنا چاہتے تھے۔

تیسری طرف ملازمت سے برطرفی اور مرتضیٰ بھٹو قتل کیس میں نامزدگی سے قانونی مشکلات اور گرفتاری کا خدشہ بھی تھا۔

ایس پی فیاض خان اور ذیشان کے خاندانی ذرائع، دونوں نے مجھے بتایا کہ ان دنوں ذیشان کاظمی خود کہنے لگے تھے کہ ’کسی نہ کسی ہتھیار میں ایک گولی میرے لیے بھی ہے۔ میری موت بھی گولی سے ہی ہوگی۔‘

”سرکاری چھتری ہٹ چکی تھی اور ذیشان مشکلات کی دھوپ میں اکیلا دکھائی دینے لگا۔“ ایک افسر نے کہا۔

”اچانک بہت سی مشکلات نے ذیشان کو گھیر لیا تھا۔ ملازمت سے برطرفی، مقدمات کا سامنا، ذہنی پریشانی، مال مشکلات اور دباؤ، سب کچھ۔۔ وہ بہت پریشان رہنے لگا۔ ریاستی اداروں میں تعلقات کام آئے نہ اعلیٰ ترین حُکّام تک پہنچ اور رسائی۔۔ سب نے ہاتھ ہی اٹھا لیے۔ یہاں تک ہوا کہ سرکاری افسران، پولیس قیادت اور اعلیٰ سیاسی و سرکاری شخصیات نے ذیشان کاظمی کا فون اٹھانا بھی بند کر دیا۔ وہ ہر ایک سے رابطے کرنے کی کوشش کرتا رہا مگر صورتِ حال کی ایسی ہو چکی تھی کہ اُس وقت کوئی ذیشان کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا۔“

”اُسی پریشانی اور روپوشی کے زمانے میں ایک روز ذیشان اپنے پرانے دوست اور کراچی انڈر ورلڈ ’ڈان‘ شعیب خان سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔“ ایک افسر نے بتایا۔

شعیب خان کو تو آپ جان ہی چکے ہیں۔ وہی شعیب خان، جس نے اپنے مفاد کے سامنے نہ دوست دیکھا نہ دشمن۔۔

جوئے کے کاروبار سے شہر بھر کی قتل و غارت میں ایک اہم کردار بن جانے والے شعیب خان اُس وقت اعلیٰ سرکاری شخصیات، پولیس اور فوجی افسران، خفیہ اداروں کے اہم عہدیداروں اور ہر سیاسی جماعت کے عسکری بازو سے جڑے جرائم پیشہ افراد اور قتل و غارت میں ملوث مجرموں سمیت ہر کس و نا کس سے رابطے میں تھے۔

ایک افسر کے مطابق ”ذیشان کو لگا کہ شعیب خان اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے انہیں اس عتاب سے بچا سکتے ہیں مگر یہی ملاقات اُن کے قتل کا پروانہ بن گئی۔“

تب شعیب خان خود بھی پریشانی اور مشکلات کا شکار تھے۔

ایک ذریعے نے بتایا ”انڈر ورلڈ کے ایک اور کھلاڑی اور حاجی ابراہیم بھولو غائب تھے اور بھولو کے دوست اس وقت شعیب خان کو بھولو کی گمشدگی (یا ممکنہ قتل) کا ذمہ دار سمجھتے تھے اور بھولو کے ہمدردوں میں ایک بڑا نام تھا منور سہروردی۔“

منور سہروردی سے ’دوستی‘ کا دعویٰ تو شعیب خان بھی کرتے تھے مگر منور سہروردی کا جھکاؤ اور ہمدردی شعیب کے خلاف ہو جانے والے بھولو نیٹ ورک کے ساتھ تھی اور وہ بھولو کے بعد شہر میں بھولو کے اثاثوں، خاندان اور بھولو کے دوستوں کے مفادات کو تحفظ دے رہے تھے لہٰذا منور سہروردی شعیب کے لیے ’ڈراؤنا خواب‘ بن چکے تھے۔

ایک ذریعے نے کہا ”منور سہروردی کو راستے سے ہٹانا شعیب کے لیے بہت ضروری ہو چکا تھا۔“ پھر شعیب خان کے شاطر دماغ نے ’لمحوں میں برسوں کی منصوبہ سازی‘ کی اور منور سہروردی کو قتل کروانے کے لیے ذیشان کاظمی کو چارے کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔

”انڈر ورلڈ بھی سیاست جیسی ہوتی ہے، وہاں بھی نہ کوئی مستقل دوست ہوتا ہے نہ کوئی مستقل دشمن۔۔ ذیشان کے ساتھ بھی یہی ہوا، جس سے مدد مانگی، اُسی نے قتل کا انتظام کر دیا۔“

ان واقعات کے بارے میں تفصیلی معلومات رکھنے والے ایک ذریعے نے بتایا ”ذیشان کاظمی تو پہلے ہی ایک نہیں بلکہ دو دو سیاسی قُوّتوں کے نشانے پر تھے۔ ایم کیو ایم کے عسکری بازو کے اراکین کراچی آپریشن کا حساب برابر کرنا چاہتے تھے اور الذوالفقار علی سنارا کی گرفتاری اور مرتضیٰ بھٹو کے قتل کا ذمہ دار سمجھ کر اپنا اسکور سیٹل کرنا چاہتی تھی۔“

مگر سچ یہ ہے کہ ذیشان کاظمی کا قتل ’سیاسی قتل‘ ہرگز نہیں تھا اور نہ ہی یہ سیاسی مخالفین نے کیا بلکہ یہ انتظام کیا انڈر ورلڈ ’ڈان‘ شعیب خان نے۔

چالاک، ذہین اور چالباز شعیب خان نے منصوبہ بندی کی کہ منور سہروردی کو قتل کروانے کے لیے الذوالفقار سے جُڑے مرتضیٰ بھٹو کے اُن حامیوں کو استعمال کیا جائے جو پیپلز پارٹی کے بھی شدید مخالف تھے اور مرتضیٰ کے قتل کا ذمہ دار پیپلز پارٹی کی قیادت کو بھی سمجھتے تھے۔

مگر مرتضیٰ بھٹو کے ساتھیوں سے منور سہروردی کو قتل کروایا کیسے جائے؟

شعیب خان نے سوال بھی سوچا اور جواب بھی۔

انگریزی محاورے ’رائٹ ٹول فار دی رائٹ جاب‘ کی تلاش شعیب کو مرتضیٰ بھٹو کے سابق ساتھیوں علی سنارا اور اُن کے دوستوں یعنی عاشق حسین کھوسہ اور نہال کالانی تک لے گئی اور علی سنارا کو منور سہروردی کے قتل پر آمادہ کرنے کے لیے شعیب خان نے ذیشان کاظمی کو چارے کے طور پر پیش کر دیا۔

ایک تفتیشی افسر کے مطابق ”شعیب نے علی سنارا سے کہا کہ اگر وہ مرتضیٰ کے قتل اور اپنی (علی سنارا کی) گرفتاری کا بدلہ لینا چاہیں تو وہ (شعیب خان) انسپکٹر ذیشان کاظمی کو علی سنارا کے حوالے کرنے کا انتظام کر سکتے ہیں۔۔۔ بس جواب میں منور سہروردی کا قتل کرنا ہو گا۔“

علی سنارا کو مرتضیٰ بھٹو کے قتل اور اپنی گرفتاری بدلہ لینے کے لیے شعیب خان کی یہ پیشکش ’سنہری موقع‘ لگی۔

منور سہروردی سیاسی مخالف تھے اور ذیشان ذاتی دشمن۔ اس سے اچھا انتقام اور کیا ہوسکتا تھا؟

علی سنارا اور اُن کے آدمی منور کے قتل پر تیار ہوگئے مگر پہلے شعیب کو ذیشان کا ’سر‘ انھیں پیش کرنا تھا۔

ذیشان کاظمی کے قتل میں ملوث دونوں ملزمان کو گرفتار کرنے والے (اُس وقت کے) کراچی پولیس کے مشہور افسر ایس ایس پی فاروق اعوان نے مجھے بتایا کہ انہوں نے ملزمان کو 2006 میں گرفتار کیا تھا۔

ملزمان سے کی جانے والی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی تفتیش، عدالتی ریکارڈ، سرکاری دستاویزات، ذرائع ابلاغ کی رپورٹس اور تفتیشی حکام نے مجھ سے مختلف نشستوں میں کی گئی گفتگو میں جو حقائق بیان کئے، اُن سب پر مبنی میری تحقیق کو اگر یکجا کرلیا جائے تو یہ سامنے آتا ہے کہ شعیب نے قتل کی منصوبہ بندی بھی بڑی احتیاط سے کی۔

واقعات کے مطابق، یہ منگل 14 اکتوبر 2003 کی دوپہر تھی، جب ذیشان کاظمی شعیب خان سے ملاقات کے لیے انچولی میں واقع اپنے گھر سے نکلے تو ڈھلتی دوپہر کی دھوپ نرم پڑ رہی تھی۔

پولیس افسر فیاض خان کے مطابق ”شعیب نے انہیں یہ کہہ کر بلوایا تھا کہ آج اُن کی ملاقات کسی ایسی شخصیت سے کروائی جا رہی ہے جو اُن (ذیشان) کا ’مسئلہ‘ حل کر سکتی ہے یعنی انہیں مشکلات سے نکال کر ملازمت پر بحال کروا سکتی ہے۔“

ایک سرکاری عہدیدار نے کہا ”شعیب کے تعلقات کے مدِنظر اس بات پر اعتبار کیا بھی جا سکتا تھا۔ تو ذیشان نے کر لیا ہوگا اعتبار۔۔ اور کر بھی کیا سکتا تھا وہ۔۔ کوئی راستہ ہی نہیں تھا اُس کے پاس۔۔“

مگر ذیشان کاظمی نہیں جانتے تھے کہ ’اعتبار‘ کے لفظ سے تو شعیب واقف ہی نہیں تھے۔

دورانِ تفتیش ملزمان نے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے سامنے جو اعترافات کئے، اُن کے مطابق، شعیب نے ذیشان کو گزری میں واقع اپنے ٹھکانے پر بلایا تھا۔ وہاں سازش میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے شعیب نے ایسا ماحول بنا رکھا تھا، جیسے وہاں کوئی ’دعوتِ خاص‘ ہونے والی ہو۔

گھر میں ہلکی آواز پر میوزک چل رہا تھا۔ لان میں بار بی کیو کا انتظام ہو رہا تھا۔ کباب بنانے والے، ویٹرز، کھانا لانے لے جانے والے یہاں تک شعیب کے محافظین بھی موجود تھے۔

مگر صرف شعیب یا قاتل ہی جانتے تھے کہ کباب بنانے والے اور کھانا لانے والے ویٹرز اور محافظین سب کے سب دراصل علی سنارا کے آدمی عاشق حسین کھوسہ اور نہال کالانی اور کئی دیگر تھے۔

عاشق کھوسہ اور نہال کالانی ’الذوالفقار‘ سے وابستہ رہ چکے تھے۔

”جُرم و سزا اور قتل و غارت نہ تو کھوسہ کے لیے نیا تھا۔۔۔ نہ کالانی کے لیے۔۔“ ایک سرکاری عہدیدار نے کہا

پولیس افسر فیاض خان کی تحقیق کے مطابق جب ذیشان وہاں پہنچے تو اُن کے پاس اپنی حفاظت کے لیے ہمیشہ کی طرح ہتھیار موجود تھا مگر شعیب کے ارادے تو کچھ اور ہی تھے۔

شعیب کے محافظوں کے روپ میں علی سنارا کے آدمیوں نے ذیشان سے اُن کا پستول یہ کہہ کر لے لیا کہ ’اندر ہتھیار نہیں لے جایا جا سکتا۔ آپ واپسی پر لے لیجیے گا۔‘

ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار کے مطابق ذیشان اندر پہنچے تو شعیب نے انہیں بتایا کہ ’مددگار شخصیت‘ بھی بس آنے ہی والی ہے۔ تب تک کچھ ’پی پلا لیتے ہیں۔‘ اور ’مشروبات‘ میں شامل تھی بے ہوشی کی دوا۔۔

زیادہ دیر نہیں لگی کہ ذیشان بے ہوش ہو گئے اور بے ہوش ہوتے ہی اُن کے قتل پر آمادہ عاشق کھوسہ، نہال کالانی اور ساتھیوں نے ذیشان کو اس عمارت کے تہہ خانے میں منتقل کر دیا۔

ملزمان نے تفتیشی حکام کو بتایا ”ذیشان کی ’خطرناکی‘ اور کسی ممکنہ مزاحمت کا اندازہ کرتے ہوئے ان کے قاتل ان کے ہاتھ باندھنا نہیں بھولے۔ ہاتھ باندھنے کے لیے استعمال کی گئی بازار سے خریدی گئی ایک ہتھکڑی۔“

جب تہہ خانے میں ذیشان کاظمی واپس ہوش میں آئے (یا زبردستی لائے گئے) تو انہیں اندازہ ہوا کہ وہ موت کے منھ میں آ چکے ہیں اور اب سامنے وہی لوگ مسلح بیٹھے تھے جو ابھی کچھ دیر پہلے تک ویٹر اور شیف بنے ہوئے تھے۔

فیاض خان کہتے ہیں ”خود ذیشان نے ساری سروس یہی ’بزنس‘ کیا تھا۔ اپنے ہاتھ میں ہتھکڑی اور اُن کے ہاتھ میں ہتھیار دیکھ کر ذیشان کو فوراً ہی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اِن لوگوں کے چنگل سے زندہ بچ نکلنا محال ہوگا۔“

ایک افسر، جو اب پولیس سروس میں نہیں رہے، اور اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب کے لیے خود بھی تحقیق کر رہے ہیں، نے بتایا ”جب ذیشان ہوش میں آئے تو شعیب خان وہیں کھوسہ اور کالانی سے باتیں کر رہے تھے۔ ذیشان کو ہوش میں آتا دیکھ کر اُن پر لاتوں اور تھپڑوں کی بارش کر دی گئی۔“

تب شعیب ذیشان کی جانب مڑے۔ مسکرا کر ذیشان کو دیکھا اور معذرت کی۔ ذریعے کے مطابق شعیب خان نے خود تو ذیشان کو انگلی بھی نہیں لگائی مگر علی سنارا کے لوگوں سے کہا کہ ’اب ذیشان پورے تمہارے ہیں۔‘

فیاض خان کہتے ہیں کہ ذیشان کبھی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے تھے کہ طویل عرصے تک دوستی کا دم بھرنے والے شعیب خان انہیں یوں دھوکہ دے سکتے ہیں

ابھی ذیشان اس صدمے سے سنبھل بھی پائے تھے کہ عاشق کھوسہ اور نہال کالانی نے اُن سے پوچھ گچھ شروع کردی۔

کتاب لکھنے والے سابق افسر کے مطابق ”حملہ آور مارتے جا رہے تھے اور پوچھے جا رہے تھے کہ مرتضیٰ بھٹو کے قتل کی منصوبہ بندی کس نے کی؟ کیسے ہوئی؟“

اس دوران ذیشان کی چیخ و پکار اور اپنے تشدد کی آواز دبانے کے لیے حملہ آوروں نے عمارت کی زمینی منزل پر چلنے والی موسیقی کے آواز تیز کر دی اور ذیشان کاظمی کی چیخیں اس گانے کی تیز دُھن میں دب کر رہ گئیں۔

پولیس کی پوری ملازمت کے دوران ایک ’انکاؤنٹر اسپیشلسٹ‘ اور سخت گیر افسر کے طور پر خود ایسے ہی انداز سے مجرموں سے پوچھ گچھ کرنے والے ذیشان کو اُسی تشدد اور بےرحمی کا سامنا تھا، جو پولیس افسران و تفتیش کار عقوبت خانے میں اعترافِ جرم کروانے کے لیے روایتی طور پر استعمال کرتے ہیں۔

”جب ذیشان کو مکمل یقین ہوگیا کہ اب وہ زندہ یہاں (اُس تہہ خانے) سے نہیں نکل سکیں گے، تب ذیشان نے مزاحمت اور زور آزمائی کا فیصلہ کیا۔“

فیاض خان کے مطابق ”بازار سے خریدی گئی سستی ہتھکڑی ذیشان کے سامنے کھلونا ثابت ہوئی اور ہتھکڑی ٹوٹتے ہی ذیشان نے نہال کالانی پر حملہ کر دیا تاکہ اُن سے پستول چھین سکیں۔ خود پر ذیشان کو حملہ آور دیکھ کر نہال ذیشان سے گتھم گتھا ہوگئے۔ دونوں ہی کے لیے یہ جان کی بازی تھی اور نہال تب جیت گئے، جب گھبراہٹ میں انہوں نے گولی چلا دی۔“

تھانے کے کمرۂ خاص میں گفتگو کرنے والے پولیس افسر کے مطابق ”یہ ایک ہی گولی ذیشان کی آنکھ میں لگی اور سر کے پار ہو گئی۔ سینکڑوں پولیس مقابلوں میں درجنوں افراد کی جان لے لینے والے ذیشان کاظمی لمحہ بھر میں جان کی بازی ہار گئے۔“

کراچی پولیس کے سب سے طاقتور، سخت گیر اور دہشت کی علامت بن جانے والے ’انکاؤنٹر اسپیشلسٹ‘ ذیشان کاظمی اس تہہ خانے کی زمین پر مردہ پڑے تھے مگر اب مردہ ذیشان کاظمی۔۔۔ زندہ ذیشان کاظمی سے زیادہ خطرناک تھے۔

ذیشان کاظمی کے ساتھ طویل عرصے تک پولیس میں کام کرنے والے ایک سابق افسر کا کہنا ہے ”ذیشان کاظمی کی لاش دیکھ کر کراچی پولیس کچھ بھی کر سکتی تھی۔ اس لیے لاش قبضے میں رکھنا، اس قتل کا الزام اپنے سر لینا یا قتل میں ملوث ہونے کا شبہ بھی ہو جانا سب کچھ موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔“

اس لاش کو شہر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا اتنا ہی خطرناک تھا، جتنا زندہ ذیشان کاظمی سے پولیس مقابلہ کرنا۔۔۔ اس لاش کو اپنے قبضے میں رکھنا بھی آسان مسئلہ نہیں تھا۔

اس لیے دو مسئلے ایک ساتھ حل کرنے تھے۔ پہلا ذیشان کاظمی کے قتل کو کسی اور کے سر منڈھنے کا اور دوسرا لاش کو ٹھکانے لگانے کا۔

اور اُن دونوں مسئلوں کو حل کیا شعیب خان کے شاطر دماغ نے۔

فیاض خان کے مطابق شعیب نے ذیشان کے قاتلوں کو مشورہ دیا کہ لاش کو ویسے ہی پھینکا جائے، جیسے وہ لوگ پھینکتے ہیں جو پولیس مقابلہ کرنے والے پولیس افسران کا قتل کرتے ہیں

اور اسی انداز سے لاش سے جان چھڑائی جائے جو پولیس پر حملہ آور دہشتگرد اپناتے ہیں تاکہ لاش سے جان بھی چھڑا لی جائے اور قتل کا الزام بھی دوسروں کے سر جائے۔

کراچی آپریشن کے دوران جب پولیس افسران کو چن چن کر مارا جانے لگا تو پورے ملک کے پریس اور عالمی ذرائع ابلاغ پولیس افسران کے قتل کی ہر واردات اور ’بوری بند لاش‘ ملنے کے ہر واقعے پر شبہ کی انگلی الطاف حسین کی ایم کیو ایم کے عسکریت پسندوں کی جانب اٹھاتے تھے۔

ایم کیو ایم ہر بار اس سب سے انکار کرتی تھی اور سختی سے جوابی الزام عائد کرتی تھی کہ یہ خفیہ اداروں کا کام ہے جو ایم کیو ایم کی مقبولیت سے خوفزدہ اور اسے طاقت سے کچل دینے کے درپے ہیں۔

اسی ماحول اور رائے عامہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شعیب خان نے ذیشان کی لاش ٹھکانے کے لیے وہی انداز اپنایا، جس سے شبہ ایم کیو ایم ہی کی جانب جائے۔

شعیب کے مشورے پر ذیشان کے قاتلوں نے لاش کو (بوری نہ ملنے کی وجہ سے) ایک (سفید) چادر میں لپیٹا اور اُسے تھانہ فیروز آباد کی حدود میں کراچی کے شرقی علاقے خالد بن ولید روڈ پر کچرا کنڈی کے پاس پھینک دیا گیا۔

شہریوں کی جانب سے لاش ملنے کی اطلاع پر پولیس تفتیش کار موقع پر پہنچے اور اُس وقت شناخت نہ ہو سکنے کی وجہ سے پہلے تو لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے جناح ہسپتال اور پھر شناخت کی خاطر سہراب گوٹھ پر واقع ایدھی مرکز میں قائم مردہ خانے منتقل کر دیا گیا۔

اس وقت ذیشان کاظمی کے اہلِ خانہ نے رابطہ کرنے پر ڈان اخبار کو بتایا تھا کہ ذیشان کاظمی منگل 14 اکتوبر 2003 کی شام آٹھ بجے سے لاپتہ تھے اور تب ہی سے اُن کے موبائل فون سے کوئی جواب نہیں دیا جا رہا تھا۔

مگر ابھی، محض چند روز قبل، جب میں نے ذیشان کاظمی کے خاندانی ذرائع سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے مزید معلومات فراہم کیں۔

خاندان کے ایک رکن نے مجھے بتایا ”جہاں تک مجھے یاد ہے ذیشان کاظمی کی اہلیہ نے کوئی خبر ٹی وی پر یا اخبار میں دیکھی اور انہوں نے ذیشان کاظمی کے بھائیوں سے ہی کہا کہ ایسی خبر آرہی ہے، تم جاؤ جا کر پتا کرو۔ پھر ذیشان کاظمی کے بھائی ایدھی سینٹر پہنچے اور لاش کو شناخت کیا۔“

ذیشان کی لاش ملنے پر شعیب خان کے اندازے کے عین مطابق بہت سے رپورٹر، میڈیا ہاؤسز، خبر رساں ادارے یہاں تک کہ کئی پولیس افسران بھی یہی سمجھتے رہے اور قومی و عالمی ذرائع ابلاغ بھی اشاروں کنایوں میں یہی بتانے کی کوشش کرتے رہے کہ یہ ’بوری بند لاشوں‘ میں ایک اور اضافہ ہے۔

ابھی میڈیا، شہری اور سیاسی حلقے ذیشان کاظمی کے قتل کے اصل محرکات جاننے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ ٹھیک تین ماہ کے اندر اچانک ایک اور چونکا دینے والا واقعہ ہوا۔۔۔

علی سنارا کو قتل کر دیا گیا!

پیر 12 جنوری 2004 کو بی بی سی اردو سروس کے (اُس وقت) کراچی میں نامہ نگار ادریس بختیار نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ علی سنارا کراچی کے جنوبی علاقے کھارادر میں اس وقت ہلاک ہوئے، جب وہ اپنے ایک ساتھی کے ساتھ ایک دکان کے باہر کھڑے تھے کہ موٹر سائیکل پر سوار مسلح حملہ آوروں نے اُن پر گولیاں چلا دیں۔

حملے میں علی سنارا اور اُن کا ساتھی موقع پر ہی ہلاک ہوگئے جبکہ دو افراد شدید زخمی ہوئے۔

(اُس وقت کے) کراچی پولیس کے سربراہ ڈی آئی جی طارق جمیل نے ادریس بختیار کو بتایا کہ ’یہ ایک منظم سوچی سمجھی واردات تھی، جس کا ہدف علی سنارا ہی تھے۔‘

بی بی سی اردو سروس کی پیر 12 جنوری 2004 کی اشاعت کے مطابق علی سنارا میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد سے مسلسل جیل میں تھے اور 2003 میں ہی رہا ہوئے تھے۔

جب ذیشان کاظمی کا قتل ہوا تو میں بی بی سی کی ملازمت کے سلسلے میں لندن منتقل ہوچکا تھا۔

لیکن، آئندہ چند مہینوں میں بعض سرکاری عہدیداروں، پولیس افسران اور قانون نافذ کرنے والے دیگر فوجی و غیر فوجی خفیہ اداروں کے حُکّام سے ہونے والے رابطوں میں اس کہانی کی بھنک گاہے بگاہے میرے کانوں میں پڑتی رہی کہ ذیشان کاظمی کا قتل کیسے ہوا اور اُس کے اصل محرکات کیا تھے۔

مگر تصدیق نہیں ہو پا رہی تھی۔ اس ساری کہانی کی ’سرکاری طور پر‘ تصدیق کی کراچی پولیس کے سابق سربراہ نیاز صدیقی نے۔

منگل 22 اگست 2006 کی شب (اُس وقت کے) کراچی پولیس کے سربراہ کیپٹل سٹی پولیس آفیسر (سی سی پی او) نیاز صدیقی نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس کی۔

بی بی سی اردو کے نامہ نگار ریاض سہیل بھی اس پریس کانفرنس میں موجود تھے، جن کی رپورٹ کے مطابق نیاز صدیقی نے بتایا کہ پولیس نے ایک خصوصی کارروائی میں لانڈھی سے عاشق حسین کھوسہ کو حراست میں لیا اور فوراً ہی کھوسہ کی نشاندہی پر کھارادر کے علاقے سے نہال کالانی کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔

نیاز صدیقی نے دعویٰ کیا کہ عاشق حسین کھوسہ اور نہال کالانی دونوں ہی انسپکٹر ذیشان کاظمی اور منور سہروردی کے قتل میں ملوث ہیں اور دوران تفتیش انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ انہوں (کھوسہ اور کالانی) نے ہی شعیب خان کی ملی بھگت اور علی سنارا کی ایما پر ذیشان اور سہروردی کو قتل کیا تھا۔

نیاز صدیقی کے مطابق ملزمان عاشق کھوسہ سیاسی کارکن نہیں تھے بلکہ ان کا تعلق کراچی انڈر ورلڈ سے تھا اور یہ شعیب خان کے دوست تھے۔

خود انڈر ورلڈ ڈان شعیب خان 29 دسمبر 2004 کو گرفتار ہوئے اور 26 جنوری 2005 کو دورانِ حراست انتہائی پراسرار حالات میں جیل میں ہلاک ہوگئے۔

کتنی عجیب بات ہے کہ جس سڑک یعنی سر شاہ محمد سلیمان روڈ کی بائیں جانب ایف سی ایریا میں ذیشان پیدا ہوئے تھے، اُسی سڑک کے دائیں جانب یعنی ارم بیکری کے علاقے میں شعیب پیدا ہوئے تھے۔

مگر طویل عرصے کی دوستی کام آئی، نہ محلّے داری۔۔

لیکن شعیب خان نے اپنی موت سے قبل منور سہروردی کا کیسے قتل کروایا یہ تفصیل ابھی باقی ہے۔

اس کے لیے ملتے ہیں اگلے ہفتے منور سہروردی کے قتل کی تفصیلات کے ساتھ۔۔۔

بشکریہ بی بی سی اردو۔ (آرٹیکل میں شامل تفصیلات سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں)

 

یہ خبر بھی پڑھیں:  

ابراہیم بھولو: کراچی انڈر ورلڈ کا وہ ’قصاب‘ جس کا نیٹ ورک افریقہ اور مشرق وسطی تک پھیلا

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close