سائفر کیس: عمران خان اور شاہ محمود کو 10، 10 سال قید کی سزا۔۔ عدالت میں عمران خان کس بات پر ہنس پڑے؟

ویب ڈیسک

خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین و سابق وزیراعظم عمران خان اور پارٹی کے وائس چیئرمین و سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو دس دس سال قید کی سزا سنا دی۔

پیر (26 جنوری) کو عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کی طویل ترین سماعت ہوئی تھی، جو 12 گھنٹوں پر محیط تھی اور رات گئے ختم ہوئی۔ سماعت کے دوران کیس میں مزید 11 گواہان کے بیانات پر جرح مکمل کی گئی۔

سائفر کیس میں مجموعی طور پر تمام 25 گواہان کے بیانات قلم بند کیے گئے اور ان پر جرح کی گئی۔

گواہان پر جرح کے بعد ملزمان کے 342 کے بیانات ریکارڈ کرنے کے لیے سوالنامے گذشتہ شب تیار کیے گئے جو آج دونوں ملزمان کو دیے گئے اور بیان ریکارڈ کیے گئے۔

بیانات ریکارڈ کرنے کے بعد سرکاری دفاعی وکلا اور استغاثہ نے حتمی دلائل دیے، جس کے بعد خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو دس دس سال قید کی سزا سنا دی۔

342 کا بیان ریکارڈ ہونے کے بعد خصوصی عدالت کے جج نے سزا سنانے سے پہلے عمران خان سے پوچھا کہ ’عمران خان صاحب سائفر کہاں گیا؟‘

جس پر عمران خان نے جواب دیا: ’میں نے اپنے بیان میں لکھوا دیا ہے، وزیراعظم آفس کی سکیورٹی ذمہ داری میری نہیں تھی، سائفر میرے پاس نہیں ہے۔‘

پاکستان تحریک انصاف نے پارٹی کے بانی چیئرمین اور وائس چیئرمین کو خصوصی عدالت کی جانب سے سائفر کیس میں سنائی گئی سزا کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیا ہے۔

ایکس پر ایک بیان میں پی ٹی آئی کا کہنا تھا ”اس سے بڑا مذاق کیا ہوگا کہ بیرونی سازش کو بے نقاب کرنے پر پاکستان نے اپنے وزیراعظم اور وزیر خارجہ کو قید کر رکھا ہے۔“

استغاثہ نے سزائے موت کا مطالبہ کیا تو عمران ہنس پڑے: علیمہ خان

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کی بہن علیمہ خان نے بتایا ہے کہ امریکی سائفر کیس میں جب پراسیکوشن یعنی استغاثہ کی جانب سے سزائے موت کا مطالبہ کیا گیا تو عمران خان ہنس پڑے۔

بانی پی ٹی آئی عمران خان پانچ اگست 2023 سے قید ہیں اور اس وقت ان کے خلاف سائفر کیس، توشہ خانہ کیس اور القادر ٹرسٹ سمیت دیگر مقدمات درج ہیں جن پر جیل کے اندر ہی مقدمہ چل رہا ہے۔

عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے بتایا ”اکتوبر، نومبر میں پراسیکوٹر کا جو اسسٹنٹ تھا، اسے جج صاحب نے عمران خان کا وکیل بنا دیا“

ان کا مزید کہنا تھا ”جسے وکیل مقرر کیا گیا تھا اس کی مدد جج صاحب اور پراسیکوٹر کر رہے تھے کیوں اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ فائل ہے کیا؟“

علیمہ خان بتایا کہ پراسیکوٹر نے سائفر کیس میں عمران خان کے لیے کیپیٹل پنشمنٹ (سزائے موت) مانگی۔

انہوں نے بتایا ”سماعت کے دوران ہی جب پراسیکوشن کی جانب سے سزائے موت کا مطالبہ کیا تو عمران خان نے ہنسنا شروع کر دیا اور کہا کہ اس سے بڑا مذاق میں نے نہیں دیکھا۔“

علیمہ خان نے بتایا کہ سائفر کیس میں جب گواہاں اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہیں تو عمران خان اور شاہ محمود قریشی ساتھ ہی کھڑے ہوتے ہیں۔

علیمہ خان کا کہنا تھا کہ عمران خان کا خیال ہے کہ ان کے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان نے جو بیان دیا ہے وہ درست دیا ہے۔

ذرائع ابلاغ میں سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق سائفر سے متعلق مقدمے میں اعظم خان نے عدالت میں اپنے بیان میں کہا ہے کہ انہیں سیکریٹری خارجہ نے کال کر کے سائفر ٹیلی گرام سے متعلق بتایا لیکن جب وہ وزیراعظم کو اس متعلق بتانے گئے تو انہیں معلوم ہوا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پہلے عمران خان سے سائفر پر بات کر چکے تھے۔

اعظم خان کے مطابق مارچ 2022 میں ان کے اسٹاف نے انہیں امریکی سائفر کی کاپی فراہم کی جو انہوں نے اگلے ہی دن وزیر اعظم کو دی جو انہوں نے اپنے پاس رکھ لی لیکن بعد میں وزیر اعظم نے بتایا کہ سائفر کی کاپی گم ہو گئی ہے۔

علیمہ حان نے کہا ”سابق پرنسپل سیکریٹری نے بتایا کہ سائفر میں پاکستان کے سفیر کا امریکہ میں ملاقاتوں کا ذکر تھا ان کے بقول وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ امریکی حکام نے سائفر بھیج کر پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی اور عمران خان کو لگتا تھا یہ میسج اندرونی ایکٹرز (کرداروں) کے لیے ہے کہ عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے۔“

علیمہ خان کے مطابق: ”اعظم خان نے بتایا کہ سائفر کی ماسٹر کاپی وزارت خارجہ کے پاس موجود ہے انہوں نے بتایا کہ ان کے چارج چھوڑنے تک سائفر کی کاپی دفتر خارجہ واپس نہیں بھجوائی گئی تھی، روایت کے مطابق سائفر کاپی واپس وزارت خارجہ کو بھجوائی جاتی ہے لیکن اس معاملے میں ایسے نہیں کیا گیا تھا، کاپی واپس نہ بھجوانے پر انہوں نے وزیراعظم اور ان کے ملٹری سیکریٹری کو متعدد بار آگاہ بھی کیا۔“

کیوں کہ اعظم خان کے عدالت کے سامنے بیان کی مصدقہ کاپی میڈیا کو دستیاب نہیں اس لیے ذرائع ابلاغ میں سامنے آنے والی تفصیلات کی تصدیق ممکن نہیں۔

عمران خان کو جیل میں کیا سہولیات میسر ہیں؟

علیمہ خان نے بتایا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کو ’اے‘ یا ’بی‘ کلاس میں نہیں بلکہ چکی یعنی ایک چھوٹے سیل میں رکھا گیا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ عمران خان سے اگر یہ پوچھیں کہ ان کا سیل کتنا بڑا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ’کبھی انہیں کوئی چیز زیادہ دے دیں تو وہ کہتے ہیں ابھی ٹھہرو پہلے میں کتابیں نکال دوں کیوں کہ میرے پاس اتنی جگہ نہیں کہ اور کتابیں رکھ سکوں اور کپڑے بھی رکھوں۔‘

علیمہ خان نے بتایا کہ ان کے سیل میں ایک گدا، ایک رضائی اور ٹی وی موجود ہے۔

عمران خان کی بہن نے بتایا کہ عمران خان کو جیل میں لکھنے کے لیے کوئی سہولت نہیں دی گئی نہ ہی ان کی لکھی تحریر باہر لے جانے کی اجازت ہے۔

علیمہ کا کہنا تھا کہ عمران خان کو دستخط شدہ کاغذ بھی باہر لے جانے کی اجازت نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’جب عمران خان نے کچھ امیداروں کو ٹکٹ دینے کی بات کی تو گوہر خان نے درخواست کی کہ آپ دستخط کر دیں تا کہ پارٹی کو بتا سکوں تو پہلے جیل انتظامیہ نے ان کا دستخط مٹا دیا اور پھر وہ کاغذ ہی لے لیا۔‘

کیس کا پسِ منظر

سابق وزیراعظم عمران خان نے 27 مارچ 2022 کو اپنی حکومت کے خاتمے سے قبل اسلام آباد میں ایک جلسہ عام میں ایک خط (سائفر) لہراتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ یہ ایک غیر ملکی حکومت کی طرف سے لکھا گیا ہے جس میں ان کی حکومت ختم کرنے کی منصوبہ بندی ظاہر ہوتی ہے۔

سائفر ایک سفارتی سرکاری دستاویز کے طور پر جانا جاتا ہے۔ عمران خان کے خلاف یہ کیس اس بنیاد پر بنایا گیا کہ انہوں نے 2022 میں امریکہ میں اس وقت تعینات پاکستان کے سابق سفارت کار اسد مجید کی طرف سے بھیجے گئے سفارتی مراسلے کے مواد کو افشا کیا۔

واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان سفارتی خط و کتابت یعنی سائفر سے متعلق عمران خان کا کہنا تھا کہ اپریل 2022 میں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور بطور وزیراعظم بے دخلی امریکی سازش کا حصہ تھی۔

امریکی حکام اس کی بارہا تردید کر چکے ہیں جبکہ پاکستانی حکومت بھی کہہ چکی ہے کہ ایسے شواہد نہیں ملے ہیں کہ پاکستان کے خلاف امریکہ نے کسی طرح کی سازش کی ہو۔

بعدازاں عمران خان کے خلاف امریکی سائفر کو عام کرنے کے جرم میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اڈیالہ جیل میں قائم کی گئی خصوصی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔

حکومت کی طرف سے جیل میں مقدمہ چلانے کی وجہ عمران خان کی زندگی کو سنجیدہ نوعیت کے سکیورٹی خدشات بتائے گئے تھے۔

29 اگست 2023 کو سائفر کیس میں عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے لیکن وہ گرفتاری سے قبل توشہ خانہ کیس میں سزا یافتہ ہونے پر اٹک جیل میں زیر حراست تھے اور ان سے اٹک جیل میں ہی سائفر کیس کی تفتیش کی گئی اور ابتدائی طور پر خصوصی عدالت اٹک جیل میں جا کر سماعت کرتی رہی۔ توشہ خانہ میں سزا معطلی کے باوجود سائفر کی وجہ سے وہ اٹک جیل میں ہی رہے۔

عمران خان کی درخواست پر بعد ازاں انہیں اٹک جیل سے اڈیالہ منتقل کیا گیا اور خصوصی عدالت اڈیالہ جیل جا کر سماعت کرتی رہی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close